ٹرمپ، مسک اور نظام کی خرابی

صدر ٹرمپ کے دوسری مرتبہ صدر کا حلف اُٹھانے کے بعد سے اُن کی شخصیت اور پالیسیوں پر تنقید کی جا رہی ہے جس کا ایک عنوان اُن کے رفیق ”ایلون مسک“ بھی ہیں جنہیں نئے قائم کردہ سرکاری کارکردگی کے محکمے (ڈی او جی ای) کا سربراہ بنایا گیا ہے اور کہا جاتا ہے کہ وہ ٹرمپ کی بہت سی پالیسیوں کا درپردہ محرک ہیں۔ تجزیہ کار اِس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ اپنے کچھ غیر ملکی دوستوں خاص طور پر روس کو خوش کرنے کے لئے مغربی غلبے والے عالمی نظام کو ختم کر رہے ہیں۔ یہ تشویش 2016ء میں ٹرمپ کی جیت کو یقینی بنانے میں مبینہ طور پر روس کے ملوث ہونے کی تحقیقات سے پیدا ہوئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ پینتالیسویں اور اب سینتالیسویں امریکی صدر دراصل روس کی پشت پناہی رکھتے ہیں تاہم اِس قسم کے خیالات رکھنا امریکی عوام کی رائے کو نظرانداز جیسا ہے اور اِس نظریئے کی یہی مہلک ترین خامی ہے۔ فرض کریں کہ صدر ٹرمپ روسی اثاثہ ہیں لیکن امریکی عوام نے انہیں دوسری مرتبہ بااثر اور باصلاحیت مخالفین پر فوقیت دی ہے۔ مخالفت کی عینک سے دیکھتے ہوئے صدر کے مشیر ایلون مسک لالچی، طاقت کا بھوکا اور اشرافیہ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جو بیوروکریٹس کو سزا دینا چاہتا ہے جو ان کی تیزی سے بڑھتی ہوئی ترقی کو چیلنج کرتے ہیں۔ اس نظریئے میں بھی خامی اور نقائص ہیں۔ اگر مسک واقعی نسل پرست سفید فام اور قوم پرستی ہیں، تو لبرلز نے دس سال پہلے اُس وقت آنکھیں کیوں بند رکھیں جبکہ انہیں لبرل ہیرو اور دھرتی ماں کا نجات دہندہ قرار دیا جا رہا تھا؟ مزید برآں سٹیزن یونائیٹڈ بمقابلہ فیڈرل الیکشن کمیشن کے فیصلے اور اس کے نتیجے میں لابنگ کی بدولت کاروباری طبقہ پہلے ہی امریکہ میں بے لگام طاقت کا استعمال کر رہا ہے۔ تو پھر دنیا کا امیر ترین شخص (ایلون مسک) اپنے آپ پر تنقید اور نفرت سجانا کیوں پسند کرے گا جبکہ وہ احتیاط سے کام لیتے ہوئے (درپردہ) صدر ٹرمپ کی ذیلی کابینہ کی تقرریوں کے ذریعے بھی اپنے مقاصد بآسانی حاصل کر سکتا تھا؟ لہٰذا ہمیں صدر ٹرمپ کی خارجہ پالیسی اور امریکی بیوروکریسی کے بارے میں ’ڈی او جی ای‘ کی مداخلت کے بارے میں مختلف زاویئے سے سوچنا چاہئے؟ انہوں نے جن وعدوں پر صدراتی انتخابی مہم چلائی اور اُنہیں اِس انتخابی مہم میں جو رائے دہندگان کا ردعمل ملا، اسے دیکھتے ہوئے میں یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ صدر مسک اور اُن کی کابینہ کا سیاسی اور انتظامی نظام کی جمود سے بہت زیادہ تعلق ہے۔ بہت سے ماہرین نے امریکی نظام حکومت اور بیوروکریسی کی جمود کے بارے میں لکھا ہے۔ اِن میں چارلس لنڈبلوم بھی شامل ہے۔ اپنی کتاب سیاست اور بازار (1977ء) میں وہ لکھتے ہیں کہ ”مارکیٹ کا نظام اور اس سے وابستہ سیاسی انتظامات اس لئے قائم نہیں ہوتے کہ وہ مثالی ہیں بلکہ اس لئے ہوتے ہیں کہ اُن کی موجودگی پہلے ہی سے محسوس کی جا رہی ہوتی ہے۔ پولیٹیکل سائنسدان پال پیئرسن اس خیال کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں: ”ایک بار قائم ہونے کے بعد، سیاسی تحریک، ادارہ جاتی قواعد اور یہاں تک کہ سیاسی دنیا کے بارے میں شہریوں کے سوچ تبدیل کر دیتی ہے۔ میکس ویبر نے معیشت اور معاشرے (1922ء) میں لکھا ہے کہ ”ایک بار جب نظام قائم ہو جاتا ہے، تو بیوروکریسی ان سماجی ڈھانچوں میں سے ایک ہوتی ہے جنہیں کمزور کرنا مشکل ہوتا ہے۔“ آئیے اب اسے بین الاقوامی نظام پر لاگو کرتے ہیں۔ کچھ ادارے صرف سرد جنگ کو ذہن میں رکھتے ہوئے بنائے گئے۔ اس کے باوجود، سرد جنگ چونتیس سال پہلے ختم ہو گئی لیکن یہ ادارے اب بھی قائم اور کسی نئے مقصد کی تلاش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ ایسے ادارے اپنے وجود کا جواز پیش کرنے کے لئے خطرات پیدا کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر روس نیٹو پر الزام عائد کرتا ہے کہ وہ خود کو سرد جنگ کی ذہنیت سے نکالنے میں ناکام رہی ہے۔ اسی طرح سی آئی اے کے ناقدین کا دعویٰ ہے کہ سرد جنگ سے لے کر دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ تک اس کے محور نے دہشت گردی کے عروج کو بڑھاوا دیا ہے۔ تاہم حقیقی دنیا کے 2 واقعات نے اس نظام پر عام امریکیوں کے اعتماد کو ہلا کر رکھ دیا ایک عراق پر حملہ اور دوسرا 2008ء کا مالیاتی بحران۔ اُس وقت صدر اُوباما کو اِس نظام کی نفی کرنے والا آئیکونکلسٹ سمجھا جاتا تھا لیکن جب انہوں نے تقریباً ہر قصوروار ادارے اور فرد کو ضمانت دی تو مایوسی پھیل گئی۔ ٹرمپ کی پہلی مدت کے دوران سوئنگ ووٹرز محتاط رہے، جس کی ایک وجہ روس میں جاری تحقیقات اور مین اسٹریم میڈیا کی مہمات تھیں۔ اس کے ساتھ ہی کووڈ (کورونا) بھی آیا۔ صدر بائیڈن نے کامیابی حاصل کی اور مثبت تبدیلیوں کو نافذ کرنے کی کوشش کی لیکن بیوروکریسی پر عوام کا عدم اعتماد گہرا ہوتا چلا گیا۔ جہاں تک بین الاقوامی نظام کا تعلق ہے، امریکہ کے اتحادیوں کے درمیان بڑھتے ہوئے اتفاق رائے سے پتہ چلتا ہے کہ صدر ٹرمپ کی صورت ملنے والا موقع تنظیم نو کا مرحلہ ہے‘ تباہی کا نہیں۔ اور اس کے لئے امریکہ کے منتخب رہنما کو وہ احترام دکھانا ہوگا جو طاقت کے ذریعے امن کے ایجنڈے پر استوار ہوتا ہے۔ حرف آخر یہ ہے کہ ایک مضبوط اور ایک سرمایہ دار امریکہ آزاد دنیا کے مفاد میں ہے۔ (بشکریہ دی ٹریبیون۔ تحریر فرخ خان۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)