سوشل میڈیا کے اس دور میں اپنی روزمرہ کی مصروفیات دوسروں تک پہنچانے کا ایسا چلن عام ہوا کہ ’ہم ہوئے تم ہوئے کہ میرؔ ہوئے۔ اس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے‘ ان مصروفیات کا کچھ احوال تو تحریر کی صورت بیان کیا جاتا ہے لیکن زیادہ تر تصاویر کی زبانی اس لئے بھی شئیرکیا جاتا ہے کہ یہ طریقہ سہل بھی ہے اور ترجمانی بھی خوب ہو جاتی ہے یعنی ”شنیدہ کے بود مانند ِ دیدہ“ (ٓنکھوں سے دیکھنے کا سا لطف،سننے میں کہاں) پھر سیل فون کی اچھی ڈیوائس میں گزرتے وقت کے ساتھ نت نئے اور بہت ہی عمدہ ریزلٹ دینے والے کیمرے بھی شامل ہونے لگے، نئی ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ جوان ہونے والی نسل کو شاید علم ہی نہ ہو کہ گزشتہ کل کیمرہ سے اچھی تصویر بنانے کا ہنر جاننے والے بھی شہر میں کم کم ہوا کرتے تھے، یہ وہ زمانہ تھا جب کیمرے میں محض آٹھ تصویریں بنانے والی فلم ہی دستیاب تھی جو بعد میں بارہ اور چھتیس تک جا پہنچی پشاورمیں بیسیوں فوٹو سٹوڈیوز تھے مگر ایک دو ہی عمدہ کام کرنے والے تھے‘ پاسپورٹ اور دیگر دستاویزات کے لئے سٹوڈیوز میں تصویریں بنانے والے باکمال فوٹو گرافرز کی تعداد بھی بہت کم تھی جن میں سے ایک با کمال فوٹو گرافر پشاور صدر میں کیپیٹل سینما کی پشت پرواقع سٹوڈیوکے مالک ”زیدی فوٹوگرافر“ بھی تھے انسانی نفسیات میں نرگسیت(خود پرستی) کا عنصر معمولی سے لے کر غیر معمولی حد تک ہمہ وقت مو جود رہتا ہے ہمیں خود کو دیکھنا اچھا لگتا ہے اس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے جب فوٹو سٹوڈیو میں دستاویز کے لئے کوئی تصویر بنائی جاتی ہے اور اس کی کئی ایک کاپیاں (نقول) کی ضرورت پڑتی ہے تو یہ جاننے کے با وجود کہ وہ سب ایک ہی تصویر کی کاپیاں ہیں مگر ہم ہرایک کاپی کو الگ الگ سے بغوردیکھتے رہتے ہیں، خیر پھر اچھے کیمرے آ گئے اور تقریبات میں پروفیشنل فوٹوگرافرز کی مانگ بڑھ گئی جو اچھی خاصی رقم بطور معاوضہ (فیس) لینے لگے (اب تو ان کی فیس لاکھوں روپے تک جا پہنچی) جب میں کوہاٹ روڈ پشاور پر واقع گلشن رحمان کی سرکاری رہائش گاہ سے گنج چوک شفٹ ہوا تھا، میرے ساتھ والے مکان میں ایک بہت ہی خوش اخلاق،خوش طبیعت اور محبتی شخص محمد انور رہتے تھے مجھے خوش آمدید کہنے گھر آئے میں ان کو نہیں جانتا تھا مگروہ مجھے اس وقت کے اکلوتے ٹی وی چینل پاکستان ٹیلی ویژن کے ڈرامہ رائٹر اور کمپیئر کی حیثیت سے اور شعر و ادب سے جڑے ہوئے ایک قلمکار کی حیثیت سے پہلے سے جانتے تھے،بڑے تپاک سے ملے، ان کی عمدہ گفتگو سے مجھے ان کے باذوق ہونے کا پتہ چلاتو پہلے ہی دن سے بے تکلف دوستی ہو گئی ایک دن وہ مجھے لے کر خان مست کالونی میں اللہ داد حجرے لے گئے جہاں ہر جمعہ کی سہ پہر کو موسیقی کے شائقین کا ایک
اکٹھ ہو تاتھاایک سے بڑھ کر ایک با ذوق دوست سے ملاقات اور تعارف ہوا، گراموفون ریکارڈر پر اللہ داد ایک ترتیب سے پرانے گانوں کے ریکارڈ لگاتے اور ان گیتوں کے شاعر،گائیک اور موسیقاروں کے بارے میں عمدہ گفتگو ہوتی،بہت ہی کمیاب اور نایاب قسم کے ریکارڈ زکا بہت بڑا ذخیرہ تھا پھر تو میں محمد انور کے ساتھ کم و بیش ہر جمعہ کو جاتااور میں انہیں لے کر ادبی تقریبات میں لے کر جاتا اور اپنے گھر میں ہونے والی موسیقی کی نشستوں میں بھی مدعو کرتا پھر پتہ چلا کہ وہ اچھے ہارمونیم پلیئر بھی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ کیمرہ سے تصویریں بنانے میں انہیں کمال مہارت حاصل ہے وہ اکثر میری تصاویر مجھے گفٹ کرتے ایک بار وہ میرے ساتھ ڈاکٹر اسماعیل قمر کے گھر موسیقی کے ایک پروگرام میں گئے، اس دن کچھ امریکہ سے آئے ہوئے کچھ پشاوری مہمان بھی مدعو تھے، شو کے دوران وہ اپنے کیمرے سے موسیقی میں مگن
دوستوں کی تصاویر بھی بنارہے تھے دو تین دن بعد البم میں سجا کر وہ تصویریں مجھے دیں کہ مہمانوں کو گفٹ کر دوں میں نے لاکھ کہا کہ ان پر آپ کا خرچہ آیا ہو گا مجھے بتا دیں مگر صاف انکار کر دیا ان میں سے میری ایک تصویر ایسی تھی کہ اس کو انلارج کر کے اور فریم میں سجا کر مجھے دی، جانے کس وقت انہوں نے میری تصویر بنائی تھی لیکن بے دھیانی میں لی ہوئی وہ کمال تصویر تھی جو میں اپنی کتابوں کے بیک ٹائٹل پر بھی لگاتا رہا بلکہ کتنے ہی عرصہ تک وہ روزنامہ آج میں میرے کالم کے ساتھ بھی شائع ہوتی رہی، بلکہ لطیفہ یہ ہوا کہ اسی پوز اور انداز میں کئی کالم نگاردوستوں نے بھی اپنی تصاویر محمد انور سے بنوائیں مجھے یاد ہے ایسی ہی ایک تصویر دیکھ کر دوست ِ عزیز ماہر امراض قلب پروفیسرڈاکٹر محمد حفیظ اللہ نے بھی فون کر کے مجھے بتایا تھا،کچھ عرصہ پہلے پھر مجھے کالم کے ساتھ تصویر بدلنا پڑی اب محمد انور رفتہ رفتہ ایک بہت اچھے فوٹو گرافر کی حیثیت سے مقبول ہو گئے اور جب مجھے کسی تقریب میں مدعو کیا جاتا تو ساتھ ہی محمد انور کو بھی ساتھ لانے کی فرمائش کی جاتی،عبادت ہسپتال کے حق بابا آڈیٹوریم میں ہونے والی ادبی اور میٹل ہیلتھ کے حوالے سے ہونے والی ساری تقریبات کی تصاویر بنانا محمد انور ہی کی ذمہ داری تھی،دوست ِ مہربان پروفیسر ڈاکٹر خالد
مفتی کئی بار مجھے کہہ چکے تھے کہ محمد انور کی تصاویر کمال ہوتی ہیں مگرمیں انہیں کہتا ہوں بندہ ئ خدا تصاویر پر آپ کا خرچہ ہوا ہو گا مجھے بتا دیں مگر ہر بار وہ مسکرا کر کہتے ہیں کہ میں ناصر علی سیّد کو بتا دوں گا، ایک بار مجھے ایک وی ایچ ایس کیسٹ کا تحفہ لا کر دیا وی سی آر کا زمانہ تھا میں نے جب پلے کی تومجھے حیرانی ہوئی کہ اس میں پاکستان ٹیلی ویژن پشاور سے نشر ہونے والے میرے پروگرام سوغات میں شامل کچھ انٹرویوز تھے جن میں مولوی جی سید امیر شاہ قادری، قتیل شفائی، احمد فراز، اللہ داد اورگائیک ہدایت اللہ سمیت کئی زعماء سے لئے گئے میرے انٹرویو یک جا کئے ہوئے تھے اسی طرح جب سوشل میڈیا کے عام ہونے کا دور آیا تو ان کے پاس کئی ایک نایاب گیتوں کی بہت نایاب ویڈیوز تھیں جو یو ٹیوب پر انہوں نے اپ لوڈ کر دیں ہیں، بعد کے زمانوں میں اعزازی سیکرٹری مشتاق ؔشباب نے انہیں اباسین آرٹس کونسل کا آفیشل فوٹو گرافر مقرر کر دیا تھا ان کے پاس قلم قبیلہ کے دوستوں کی عمدہ تصاویر کا ایک بہت بڑا خزانہ پڑا ہوا تھا اور ہر دوست کی سالگرہ پر اس کی تصویر سالگرہ مبارک کے پیغام کے ساتھ فیس بک پر لگا تے تھے، پھر وہ حیات آباد شفٹ ہو گئے اور پیرانہ سالی اور بیماری کی وجہ سے موٹر سائیکل بھی ان سے چھوٹ گیا تھااس لئے اباسین آرٹس کونسل کے علاوہ باقی تقریبات کے لئے وہ دستیاب نہیں ہو سکتے تھے، ابھی کچھ ہی دن پہلے اباسین آرٹس کونسل کی ایک تقریب ہمیشہ کی طرح مسکراتے ہوئے کیمرہ بدست ملے اور تصاویر بنائیں لیکن خلاف معمول مجھے تصاویر نہیں ملیں میں تصاویر کے انتظار میں تھا کہ گزشتہ کل ان کے بچھڑنے کی خبرنے ادھ موا سا کر دیا اور بیتے ہوئے محبت بھرے دنوں کی یادوں نے آنکھوں میں دھواں بھر دیا،ساری آوازوں کا انجام ہے چپ ہو جانا،ابھی سنبھل بھی نہیں پایا تھا کہ معلوم ہوا کہ اسلامیہ کالج یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے چیئرمین ڈاکٹر اظہار اللہ اظہار کے والد اور میرے ہمدم ِ دیرینہ معروف شاعر ادیب اور صوفی دانشور انعام اللہ قیسؔ اور ادھر تہران، ایران میں فارسی،اردو اور انگریزی زبان کے ادیب، مترجم، دانشور،کئی کتب کے مصنف اور خانہ فرہنگ ایران پشاورکے سابق ڈائریکٹر جنرل اور میرے دل کے بہت قریب دوست آقائے رئیس السادات بھی اپنی باری بھر چلے دونوں سے دل و جاں کے کئی رشتے تھے اور یہ بات تو میں کبھی نہیں بھولوں گا کہ اردو سیکھنے کے بعدآقائے رئیس السادات نے اپنی زندگی کی پہلی اردو تحریر میری کتاب ”زندگی“ (ڈرامہ) کی رونمائی کی تقریب میں پڑھی تھی، یکے بعد دیگرے ان صدموں نے نڈھال کر رکھاہے، علامہ اقبال یاد آگئے۔
جو بادہ کش تھے پرانے وہ اْٹھتے جاتے ہیں
کہیں سے آب ِ بقائے دوام لے ساقی!