مصنوعی ذہانت: کارہائے نمایاں 

قریب نو سال قبل دنیا نے مصنوعی ذہانت (اے آئی) پر مبنی ماڈلز کے درمیان مقابلہ (میچ) دیکھا۔ پانچ مراحل(راؤنڈز) پر مشتمل اِس  مقابلے میں الفاگو نے لی سیڈول نامی روبوٹس کو چار ایک سے شکست دی، جس کے نتیجے میں نہ صرف انسانی بالادستی کے بارے میں دیرینہ مفروضوں کو چیلنج کیا گیا بلکہ اے آئی ٹیکنالوجی میں ایک اہم پیش رفت بھی سامنے آئی۔ شطرنج کے کھیل کو مصنوعی ذہانت سے کھیلنے میں جس مہارت کی ضرورت ہوتی ہے مصنوعی ذہانت نے اس مہارت کو پیچھے چھوڑ دیا۔ الفاگو کی فتح نے ظاہر کیا کہ مصنوعی ذہانت نہ صرف پیچیدہ کاموں میں انسانی ذہانت کا مقابلہ کر سکتی ہے بلکہ انسانی عقل سے آگے بھی نکل سکتی ہے جن میں استدلال اور تخلیقی صلاحیتوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس تاریخی واقعہ نے پیچیدہ فیصلہ سازی اور اسٹریٹجک سیاق و سباق میں مصنوعی ذہانت کے مستقبل کے کردار کے بارے میں وسیع بحث کو جنم دیا مذکورہ میچ کی نویں سالگرہ کے موقع پر مصنوعی ذہانت پر مبنی ٹیکنالوجی کی ترقی پر نظر کرنے کا یہ بہترین لمحہ ہے۔ گزشتہ دہائی کے دوران، مصنوعی ذہانت نے مشین لرننگ اور علمی حساب کتاب کے بارے میں انسانی تفہیم کو نئی شکل دی۔ آج مصنوعی ذہانت زبان سیکھنے کے ماڈل چیٹ جی پی ٹی، جیمنی اور ڈیپ سیک وغیرہ تخلیقی تحریر، فنکارانہ اظہار اور تصویر کی تشکیل کا مجموعہ ہیں۔ وہ ایک کارکردگی اور باریکی کے ساتھ انسانوں جیسا مواد تیار کر سکتے ہیں جو روایتی تخلیقی صلاحیتوں کی حدود کو نئی بلندی تک لے کے جاتا ہے۔ بکسبی، الیکسا اور سری جیسے ڈیجیٹل اسسٹنٹس روزمرہ کے کاموں کو آسانی سے منظم کر رہے ہیں۔ اسی طرح روبوٹکس اور خود کار گاڑیوں نے بھی ترقی کی ہے اور ویمو، ٹیسلا اور بائیڈو جیسی کمپنیاں صارفین کو بہترین خصوصیات والی گاڑیاں فراہم کرنے کی دوڑ میں لگی ہوئی ہیں۔ گوگل، ایمیزون اور مائیکروسافٹ بھی تیز (بریک نیک)رفتار سے جدت اور انٹرپرینیورشپ کی قیادت کر رہے ہیں۔ سال دوہزارچوبیس کے آخر تک، تقریباً 245 اے آئی کمپنیاں ابھریں جو ٹیکنالوجی کو ایک نئی صلاحیت دے رہی ہیں۔حکومتیں بھی مصنوعی ذہانت میں سرمایہ کاری کر رہی ہیں، جس میں امریکہ اور چین پیش پیش ہیں اور ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس تناظر میں، مصنوعی ذہانت کو اثر و رسوخ کے ایک اہم محرک کے طور پر دیکھا اور سمجھا جارہا ہے۔ خاص طور پر کوائف کو بہتر بنانے، انٹیلی جنس نگرانی اور جاسوسی وغیرہ کے لئے مصنوعی ذہانت کا استعمال قومی سلامتی کے ادارے بھی کر رہے ہیں۔ ایسے ڈرونز بنا لئے گئے ہیں جو مصنوعی ذہانت پر کام کرتے ہیں اور ان کا استعمال ناگورنو کاراباخ اور روس یوکرین جیسے حالیہ تنازعات میں کیا گیا ہے جس سے اندازہ  لگایا جا سکتا ہے کہ مستقبل کے میدان جنگ کیسے ہوں گے۔مصنوعی ذہانت کے ساتھ کئی ایک چیلنجز بھی جڑے ہوئے ہیں اور یہ پیش رفت ہمیں ٹیکنالوجی پر انحصار کی حد مقرر کرنے اور اِس پر غور کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔ مشینیں جس قدر بھی ترقی کر جائیں انسانوں کی بالادستی قائم رہنی چاہئے کیونکہ انسانی ذہن میں بصیرت، تخلیقی صلاحیت کے ساتھ جذبات کی صلاحیت بھی ہوتی ہے جو جدید سے جدید الگورتھم بھی نظر انداز کر دیتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ مصنوعی ذہانت کو ایک قسم کا خطرہ قرار دیا جا رہا ہے۔(بشکریہ دی نیوز۔ تحریر شذہ عارف۔ ترجمہ ابوالحسن اِمام)

 دنیا جدید سے جدید ہو رہی ہے لیکن اِس میں اخلاقیات اور اخلاقی اقدامات کی گنجائش کم ہو رہی ہے۔ مصنوعی ذہانت کے عروج اور ترقی کو ذمہ دارانہ شکل بھی دی جا سکتی ہے جس میں انسانی سوچ اور ذہانت جیسی خصوصیات بھی شامل ہونی چاہیئں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔