دنیا کے بدلتے رنگ

چین کے صدر کا یہ کہنا سو فیصد درست ہے کہ ٹیرف جنگ میں کوئی فاتح نہیں ہوتا‘ ٹرمپ کا اقدام غنڈہ گردی ہے  دنیا کے خلاف کھڑے ہونے کا نتیجہ اچھا نہیں آئے گا۔ادھر وطن عزیز میں نہری منصوبوں پر سندھ اور پنجاب کے درمیان اختلافات جلد ختم کرنے کی ضرورت ہے‘ دو نوں حکومتوں کے زمہ دار  افراد کی ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی  فوری طور پر بند کرناضروری ہے۔ بیلا روس کا وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے حال ہی میں جو دورہ کیا ہے اس کا ایک مثبت نتیجہ یہ نکلا ہے کہ تقریباً ڈیرھ لاکھ پاکستانیوں کو بیلا روس میں روزگار ملنے کی امید پیدا ہو گئی ہے۔خلیجی ریاست عمان میں امریکہ اور ایران کے درمیاں جو جوہری مذاکرات ہو رہے ہیں‘ اگر وہ کامیاب نہ ہوئے اور کچھ لو اور کچھ دو کے فارمولے پر کوئی فیصلہ نہ ہوا تو اس بات کا شدید امکان ہے کہ کہیں امریکہ اور ایران میں جنگ نہ  چھڑ جائے‘اگر ایسا ہوا تو دنیا تیسری جنگ عظیم کا شکار ہو سکتی ہے۔امریکی صدر ٹرمپ نے پہلے ہی ایران پر حملے کی دہمکی دے رکھی ہے اور ایران کسی طور بھی اپنے جوہری پروگرام کو لپیٹنے کے لئے تیار نہیں۔  پنجاب کی وزیر اعلیٰ نے اپنے صوبے میں مفاد عامہ کے کئی ترقیاتی منصوبے لا نچ کر ڈالے ہیں کہ جو اگر پایہ تکمیل تک پہنچ گئے تو عوام کو ان سے کافی فوائد ملیں گے اور یہ امر پھر آئندہ الیکشن میں مریم نواز کے لئے کامیابی کا باعث بنے گا‘وسطی ایشیا کے ممالک کے ساتھ  پاکستان کے تعلقات استوار کرنے کی حکومتی پالیسی ایک دانشمندانہ اقدام ہے جو معاشی طور پر وطن عزیز کے واسطے مفید ثابت ہو سکتا ہے اس ملک کے ارباب اقتدار کو سفارتی سطح پر تمام اسلامی ممالک کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کے لئے یورپی یونین کی طرز پر یک جان دو قالب کرنے کی بھی ضرورت ہے صرف اسی طرزعمل سے عالم اسلام دنیا کی سیاست میں اپنے لئے ایک مضبوط بلاک  بنا سکتا ہے۔امریکہ کی سوویت یونین کے خلاف سرد جنگ میں 1950ء کی دہائی سے لے کر ایک لمبے عرصے تک پاکستان نے بے پناہ معاونت کی بلکہ اس کے سر پر خواہ مخواہ اس وقت کے سوویت یونین کی دشمنی بھی خریدی‘ پر اس کے بدلے میں ہمیں کیا ملا؟جب 1971ء میں بھارت پاکستان جنگ میں ہم پر برا وقت آیا تو امریکہ نے طوطا چشمی کی اور ہماری مدد کو نہ پہنچا جس سے پاکستان دو ٹکڑے ہو گیا‘ اگر اس وقت اس کا بحری بیڑہ حرکت میں آ جاتا تو شاید پاکستان دو ٹکڑے ہونے سے بچ جاتا‘کئی لوگوں کو آج یہ خدشہ لاحق ہے کہ پاکستان ایک مرتبہ پھر امریکہ کے بہکاوے اور جھانسے میں آ کر کہیں امریکہ کی چین کش پالیسی میں اس کا ساتھ نہ دینا شروع کردے اور امریکہ کی میٹھی میٹھی باتوں میں نہ آ جاے کیونکہ پاکستان تزویراتی اور  جغرافیائی محل و وقوع کے لحاظ سے اس خطے میں بڑی اہمیت کا حامل ہے‘وزیر خارجہ کوبروقت یہ بیان جاری کر دینا چاہیے کہ ہم تمام ممالک بشمول امریکہ کے ساتھ دو طرفہ تعلقات رکھیں گے پر کوئی بھی ہم سے یہ توقع نہ رکھے کہ کسی بھی تیسرے ملک کے خلاف اسے  اپنی سرزمین  استعمال کرنے دیں گے۔  اپنے ایک پچھلے کالم میں ہم نے اردو زبان کی باریکیوں کے بارے میں چند الفاظ لکھے تھے جنہیں ہمارے بعض قارئین نے پسند کر کے فرمائش کی ہے کہ اس ضمن میں کچھ مزید تحریر کیا جائے‘ چنانچہ ان کی اس خواہش کی تکمیل اور احترام  میں اس سلسلے کو آ گے بڑھاتے ہوئے ہم ان کی خدمت میں مزید گذارشات رقم کر رہے ہیں‘تابعدار لفظ کے بارے میں عرض ہے اس لفظ کے لغوی معنی ہوتے ہیں تابع رکھنے والا اس لئے اگر کوئی ماتحت اپنے حاکم افسر کو کوئی درخواست تحریر کرنے کے بعد اپنے نام سے پہلے تابع دار لکھتا ہے تو یہ خلاف ادب ہے‘اس کی جگہ اسے خدمت گار لکھنا چاہیے اسی طرح قرض حسنہ لکھنا غلط ہے صحیح ترکیب قرض حسن ہے‘ جل تھل کے لفظ کے بارے میں عرض ہے کہ جل کا مطلب پانی اور تھل کامعنی ہے خشک زمین‘ جل تھل ہو گیا‘ بے معنی اور غلط ہے صحیح جملہ ہے جل تھل ایک ہو گیا‘ لالچ کا لفظ مذکرہے لیکن اسے مونث استعمال کیا جا رہا ہے‘مثلاً لالچ تم کو نقصان پہنچائے گی‘ اس فقرے کی درست صورت یہ ہے کہ لالچ تمہیں نقصان پہنچائے گا۔

 آ س پڑوس غلط العام ہے اسے پاس پڑوس لکھا جائے‘ سال کی جمع سالوں کے استعمال سے گریز کیا جائے اس کی جگہ لفظ برس کو واحد بھی لکھا جا سکتا ہے‘ بر سہا برس لکھنا غلط ہے‘ برس ہندی کا لفظ ہے اس کی جمع کے لئے فارسی کی طرح ہا استعمال کرنا درست نہیں‘اس کے بجائے سالہا سال زیادہ مناسب ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔