مشتری ہوشیار باش

جامعات کے ان ملازمین کیلئے جو عام آدمی کے زمرے میں آتے ہیں مملکت خداداد کے امور مالیات یا خزانہ کے وزیر باتدبیر نے پہلے بیان میں سرخ جھنڈی لہراتے ہوئے کہا ہے کہ آئندہ بجٹ میں پنشن اور تنخواہوں میں اضافے کی کوئی تجویز زیر غور نہیں‘موصوف نے صرف اس پر اکتفا نہیں کیا بلکہ عوام کو یہ خوش خبری  بھی سنا دی کہ بہت جلد آئی ایم ایف سے مزید سودی مشروط قرضے کے ملنے سے خوش ہو جائیں گے اس بابت اگر چھوٹی منہ بڑی بات والا مقولہ نہ رکے تو یہ کہنا مناسب ہوگا کہ تنخواہوں اور پنشن میں اضافے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ کیونکہ ایک تو حکومت بھاری بھر کم انکم ٹیکس کی شکل میں اس اضافے کو واپس لے رہی ہے جبکہ دوسری اہم بات یہ ہے کہ آئی ایم ایف سے ملنے والا مشروط سودی قرضہ جب عوام یعنی نوکر پیشہ لوگوں کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافے کی نذر ہو جائے تو پھر وزراء مشاورین و معاونین اور اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں ہونے والے160 فیصد اور188 فیصد اضافے کی ادائیگی کا کیا بنے گا؟ ویسے بعض کام ایسے بھی ہوتے ہیں جس پر کرنے والے سے زیادہ دیکھنے والے کو اپنا احساس ملامت کر دیتا ہے بعینہ اسی طرح جیسے یہ سینکڑوں فی صد اضافہ اور وہ بھی ان خواص کیلئے جن کی تنخواہ بنتی ہی نہیں عام آدمی کے زمرے یا طبقے میں آنیوالے یونیورسٹی ملازمین کا یہ بھی کہناہے کہ اس سے قبل تنخواہوں اور پنشن میں جو اضافہ کیا گیا ہے حکومت نے اس کی ادائیگی کیلئے یونیورسٹیوں کو کتنی گرانٹ فراہم کی ہے؟ بعض مایوس قسم کے جذباتی کلاس فور تو یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ مملکت خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان کے تمام تر سیاہ و سفید ان لوگوں پر نچھاور کرلیں جن کیلئے یہ ریاست وجود میں آئی ہے اور جنہیں کسی تنخواہ اور اس میں اس جیسے عجیب وغریب اضافے کی ضرورت ہی نہیں عاقبت اندیش لوگوں کے نزدیک سماجی ناانصافی کے اس جیسے نظام میں اگر دھرتی کے محب الوطن باسیوں میں سے کسی فرد میں احساس محرومی کی شدت کے سبب ملک و ملت سے وابستگی کا جذبہ ماند پڑ جائے تو کیا یہ ایک فطری امر نہ ہوگا؟ خیبرپختونخوا کی پرانی جامعات جس تیزی سے تنزلی کی آخری حد تک کی جانب گامزن ہیں اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہ ہوگا کہ ہمارے ہاں تعلیم اور تعلیمی اداروں کا مستقبل غیر یقینی تو کیا بالکل تاریک ہے‘ملک کی75 سالہ قدیم درس گاہ بجٹ کے اربوں روپے خسارے جبکہ ریٹائرڈ ملازمین کی گریجویٹی کے کروڑوں روپے کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے عیدایڈوانس تو کب کا دفن ہو چکا ہے عید سے چند دن قبل تنخواہ کی ادائیگی بھی ممکن نہیں رہی‘ پنشن کیلئے تو کچھ ہے ہی نہیں بلکہ پنشنرز کو تو سزا دی جا رہی ہے کہ انہوں نے تعلیم و تدریس والے ادارے سے وابستگی کی غلطی کیوں کی؟ باقی رہی آئی ایم ایف سے مزید سودی قرضے کی منظوری پر خوشی کی بات تو میرے نزدیک تو وہ دن اس ملک کے غرباء و مساکین کیلئے خوشی کا نہیں بلکہ ماتم کا جبکہ خواص کیلئے شادیانے بجانے کا دن ہوگا ویسے وزیر خزانہ کا یہ دوسرا بیان خدا کرے کہ غریب عوام اور ملازمت پیشہ باسیوں کیلئے امید کی کرن ثابت ہو کہ بجٹ میں تنخواہ اور پنشن میں اضافے کی تجویز کو یکسر رد نہیں کیا جا سکتا۔