پاکستان کی برآمدات پر امریکی محصولات کے حالیہ نفاذ اور اب جزوی معطلی نے پاکستان کے کاروباری اور فیصلہ ساز حلقوں کو تشویش میں مبتلا کر رکھا ہے۔ ابتدائی طور پر شہ سرخیوں سے اطلاع ملی کہ امریکہ نے ٹیرف 29 فیصد اضافہ کیا ہے لیکن صدر ٹرمپ کی جانب سے 90 دن کے وقفے اور سفارتی کوششوں سے کچھ بہتری آئی ہے اور یہی وہ موقع ہے جس سے پاکستان فائدہ اُٹھا سکتا ہے۔ پاکستان سے تعلق رکھنے والا سینئر وفد تجارتی اور ٹیرف مذاکرات کے لئے جلد واشنگٹن کا دورہ کرے گا۔ اگر اس کوشش سے تجارتی تعلقات درست طریقے سے ترتیب دیئے گئے تو نقصانات پر قابو پانے میں مدد مل سکتی ہے بلکہ امریکہ اور پاکستان کے اقتصادی تعلقات بحال ہونے کا آغاز بھی ہو سکتا ہے۔ یہ صرف محصولات کے بارے میں نہیں بلکہ وقت، فائدہ اور حکمت عملی کے بارے میں ہے۔ صدر ٹرمپ کی اقتدار میں واپسی نے اپنے ساتھ اقتصادی سلامتی اور سپلائی چین پر توجہ مرکوز کی ہے۔ اہم معدنیات تک رسائی کو یقینی بنانے کے لئے امریکی انتظامیہ کی کوششوں سے کہیں زیادہ واضح نہیں ہے۔ ٹرمپ کے نکتہ¿ نظر میں معدنیات قومی اثاثے ہیں جو براہ¿ راست خودمختاری اور سلامتی سے جڑے ہوئے ہیں۔ یہ افہام و تفہیم امریکہ کی خارجہ پالیسی کو اس انداز میں تشکیل دے رہی ہے کہ اگر پاکستان اس سے فائدہ اٹھانے کے لئے منصوبہ بندی کرے اور ہوشیار رہے تو اِس پوری صورتحال سے فائدہ اُٹھا سکتا ہے۔پاکستان دنیا میں سب سے قیمتی معدنیات کے ذخائر کا گھر ہے، جن میں تانبا، سونا اور نایاب زمینی عناصر شامل ہیں۔ اِن ذخائر سے استفادہ کئی دہائیوں سے غیر ترقی یافتہ ہیں اور غیر متوازن پالیسی، گورننس کے مسائل اور غیر ملکی سرمایہ کاری کی کمی کی وجہ سے ترجیح نہیں۔ پاکستان کو سمجھنا ہوگا کہ یہ وقت واشنگٹن سے ٹیرف واپس لینے یا پرانی ترجیحات کو بحال کرنے کے دفاعی مطالبے کا نہیں کیونکہ ایسا کبھی نہیں ہوگا۔ اصل موقع ایک آگے بڑھنے والی، باہمی قدر کی تجویز پیش کرنے میں مضمر ہے جو پاکستان کی معدنی صلاحیت کو امریکہ کی ضروریات سے جوڑے۔ فی الوقت امریکہ پاکستان سمیت کسی بھی ملک کی امداد کے حوالے سے بات چیت کے موڈ میں نہیں لیکن وہ فعال طور پر ایسے شراکت داروں کی تلاش کر رہا ہے جو تیزی سے بکھری ہوئی عالمی معیشت میں اس کی سپلائی چین کی طویل مدتی سلامتی میں حصہ ڈال سکیں۔واشنگٹن میں پاکستان کا سفارتی عملہ مختلف روایتی چینلز، خاص طور پر اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ذریعے مصروف اور فعال ہے لیکن موجودہ وقت میں سفارت کاری سے ہٹ کر متوازی راستہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ وائٹ ہا¶س کے اندر قومی سلامتی اور معاشی ٹیموں کے ساتھ محدود منظم روابط ہیں، جہاں اس انتظامیہ کی معدنی حکمت عملی کا بنیادی حصہ تشکیل دیا جا رہا ہے اگرچہ پاکستانی سفارت خانے کی کوششیں اہم ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس وائٹ ہا¶س میں رسائی اور اثر و رسوخ مختلف دروازوں سے گزرتا ہے۔ جب تک ہم اپنے نکتہ¿ نظر کو وسیع نہیں کرتے‘ اُس وقت تک بات نہیں بنے گی۔اگر بات چیت تجارتی بیوروکریٹس کے ذریعے کی گئی تو یہ بات چیت خاطرخواہ مفید ثابت نہیں ہوگی۔ ہمیں وائٹ ہا¶س اور قومی سلامتی کونسل کے سینئر عہدیداروں سے براہ راست رابطے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ صرف تجارتی مسئلہ نہیں ہے۔ یہ قومی سلامتی سے جڑا معاملہ بھی ہے۔ پاکستان کے لئے یہ وقت داخلی اصلاحات کا ہے۔ ریگولیٹری اقدامات کو آسان بنانا قابل عمل معاہدوں کا باعث بن سکتا ہے جس سے بین الاقوامی شراکت دار پاکستان میں سرمایہ کاری کر سکیں گے۔ سرمایہ کاروں کو موافق انتظامی ڈھانچے کی ضرورت ہوتی ہے۔ پاکستان کے پاس بیانیہ تبدیل کرنے کا موقع ہے۔ استثنیٰ کی درخواست کرنے کے بجائے، ہم امریکہ کو تعلقات کے نئے دور کے لئے حل پیش کر سکتے ہیں۔ یہ سوال پوچھنے کے بجائے کہ واشنگٹن ہمارے لئے کیا کر سکتا ہے‘ ہمیں یہ سوال اُٹھانا چاہئے کہ پاکستان امریکہ کے معدنی مستقبل کا مرکز کس طرح بنایا جا سکتا ہے۔ اگر ہم امریکہ سے کامیاب مذاکرات کر سکیں تو اس کا فائدہ طویل مدتی سرمایہ کاری، روزگار اور مستقبل کی عالمی سپلائی چین میں پاکستان کے لئے قابل اعتماد کردار ہو گا۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ایم عمر۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)