مصنوعی ذہانت کے خدو خال

آج کل کمپیوٹرز کی دنیا میں مصنوعی ذہانت کا بڑا چرچا ہے ہم اس کالم میں اس نئی ایجاد کے فائدے نہیں گنوائیں گے بلکہ جو سوالات ایک حساس ذہن کو پریشان کر رہے ہیں ان پر ایک سرسری نظر دوڑائیں گے‘ پر اس سے پیشتر ہم اپنے قارئین کو یہ بتلاتے چلیں کہ آج ہم ایک ایسے دور میں شامل ہو رہے ہیں کہ جہاں مشینیں اب وہ کام کریں گی کہ جو انسان کیا کرتے ہیں‘ ملازمتیں‘کاروبار‘ حتیٰ کہ انسانی رشتے بھی مصنوعی ذہانت کے نیچے آ نے والے ہیں‘ انسان آج پریشان ہے کہ کہیں اس کی بنائی ہوئی مشین اس کے مقابلے میں نہ آ جائے‘ وہ دن دور نہیں جب مشینیں انسانوں کی جگہ لے سکتی ہیں‘ سوال یہ پیداہوتا ہے کہ اگر انسانوں کی جگہ مصنوعی ذہانت کا سسٹم فیصلے کرنا شروع کر دے گا‘ کارخانوں میں روبوٹ مزدور بن جائیں گے اور ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کی جگہ خود کار نظام علاج کرنا شروع کر د ے گا تو انسان کہاں کھڑا ہوگا؟کیا اس سے بے روزگاری بڑھ نہیں جائے گی‘ اگر مصنوعی ذہانت کا سسٹم لاگو ہو گیا تو کیا اس سے رشتے صرف نام کے نہیں رہ جائیں گے؟ یہ ضروری ہے کہ ہم ٹیکنالوجی کو ایک حد کے اندر رکھیں اس پر مکمل انحصار نقصان سے خالی نہ ہو گاہم اسے  اپنے اوپر مسلط کرنیکے بجائے اپنے مددگار کے طور پر  استعمال کریں تو بہتر ہو گا‘ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے‘جب انسان قدرت کے نظام میں مداخلت کرتا ہے اور ایسی ایجادات کرتا ہے کہ جو فطرت کے خلاف ہوں تو اس کے نقصانات بھی ہوتے ہیں۔ان ابتدائی سطور کے بعد چند تازہ ترین اہم قومی اور عالمی امور کا تذکرہ بے جا نہ ہو گا۔ملک کے سیاسی منظر نامے پر اگر تنقیدی نظر ڈالی جائے تو مایوسی کے سوا کچھ بھی نہیں ملتا ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں یعنی پی پی اور ن لیگ کے درمیان محاذ آ رائی افسوس ناک ہے‘ بہتر ہو گا اگر بڑا صوبہ ہونے کے ناطے ن لیگ نہری  پانی کے معاملے میں  بڑے دل کا مظاہرہ کرے۔
فارسی زبان کا ایک شعر ہے‘جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی دیوار کی پہلی اینٹ ہی ٹیڑھی لگائی  جائے گی  تو وہ دیوار  پھر اوپر تک ٹیڑھی ہی جائے گی۔وطن عزیز کے قیام کے وقت دنیا میں دو سپر پاورز کا چرچا تھا ہمارے آس پڑوس میں سوویت یونین اور سات سمندر پار امریکہ اگر آزادی کے فوراً بعد سے ہی ہمارے ارباب بست و کشاد دونوں کے ساتھ بھی بنا کر رکھتے اور صرف امریکہ کی گود میں ہی نہ بیٹھتے تو بہتر تھا‘ہٹلر کو تاراج کرنے کے بعد امریکہ بشمول اس کے اتحادیوں کا اگلا ٹارگٹ سوویت یونین بن گیا تھا‘کمیونزم  کو ختم کرنا ان کا اگلا ہدف تھا جس کے خلاف امریکی پالیسی سازوں نے سرد جنگ cold war شروع کر دی‘ جگہ جگہ امریکن سینٹرز کے نام سے  پروپیگنڈے کے واسطے اشاعتی ادارے کھول دئیے گئے اور ساتھ ہی ساتھ بغداد پیکٹ سیٹو اور سینٹو  جیسے عسکری معاہدے بھی کر لئے گئے اس تمام عمل میں ہمارے ان وقتوں کے ارباب اقتدار نے امریکہ کا بھرپور ساتھ دیا ہم نے تو امریکہ کی اندھی تقلید میں وطن عزیز میں اسے ایک ہوائی اڈہ بھی فراہم کر دیا تاکہ وہاں سے ایک امریکی جاسوس طیارہ اڑانیں بھر کر سوویت یونین جائے اور وہاں پر نصب ملٹری تنصیبات کی فوٹو گرافی کرے‘ ان حرکات پر سوویت یونین نے تو ہمارا دشمن بننا ہی تھا سو وہ بنا اور ماضی قریب تک اس کے دل میں پاکستان کے خلاف میل رہی‘ اب کہیں چند برسوں سے روس کے ساتھ ہمارے تعلقات بہترہونے لگے ہیں  جو یقیناً امریکہ کو نہ بھاتے ہوں گے‘بالکل اسی طرح کہ جس طرح وہ چین کے ساتھ ہماری رغبت کو پسندیدہ نظر سے نہیں دیکھتا‘ وہ اب اس تگ و دو میں ہے کہ کسی نہ کسی طریقے سے پاکستان اور چین اور پاکستان اور روس میں دوریاں پیدا کرے ہمارے فارن آ فس کو بیدار رہنا ہوگا اگر ہم نے چین اور روس کے ساتھ بنا کر رکھی تو یقین مانئے گا ہمارا کوئی دشمن بھی ہمارے خلاف کسی قسم کی بھی سازش میں کامیاب نہیں ہو سکے گا  جو بھی اس ملک کے اب حکمران ہوں گے ان کو خالی خولی نعرے لگانے سے عوام کی حمایت میسر نہیں ہو سکے گی ان کو اس ملک کی معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کیلئے ٹھوس اقتصادی پالیسیوں کو مرتب کرنا ہوگا اور ملک کو صحیح معنوں میں ایک سوشل ویلفیئر سٹیٹ بنانا ہوگا۔

لوگ اب کافی بیدار ہیں وہ جب سویڈن‘ ناروے‘ ڈنمارک کنیڈا اور انگلستان میں رائج معاشی نظام کو دیکھتے ہیں تو سوال کرتے ہیں کہ آ خرہمارے حکمران اسی قسم کا نظام وطن عزیز میں لاگو کیوں نہیں کرتے؟۔۔۔۔۔۔۔