قرضہ آئی ایم ایف دے یا کوئی اور قرضے کیلئے عائد شرائط کا بوجھ عام شہری نے ہی اٹھانا ہے وطن عزیز کا یہ عام شہری بھاری قرضوں کیلئے عائد ہونے والے ٹیکس بھی ادا کرتا ہے اور قرضے دینے والوں کی ڈکٹیشن پر بنے والے بھاری یوٹیلٹی بل بھی بھرتا ہے حالانکہ یہ درپیش اقتصادی منظر نامے کا ذمہ دار ہی نہیں ‘یہ شہری کسی بھی ادارے کو درپیش مالی مشکلات کا بھی ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے وہ اس طرح کہ اس ادارے کی مالی ضروریات پوری کرنے کیلئے مختلف حوالوں سے ادائیگیاں بھی عام شہری کو کرنا پڑتی ہیں۔خیبر پختونخوا حکومت نے حال ہی میں ایک نیا فیصلہ کیا ہے، جس کے تحت پولیس سے حاصل کئے جانے والے تمام اہم سرٹیفکیٹس اور دستاویزات پر فیس عائد کر دی گئی ہے۔ کریکٹر و کلیرنس سرٹیفکیٹ، ویزہ پراسیسنگ اور کرایہ داری فارم اب مفت نہیں رہیں گے۔ صوبائی کابینہ کی منظوری کے بعد یہ فیصلہ نافذ العمل ہو چکا ہے۔ نئے اعلامیے کے مطابق، کریکٹر، کلیرنس اور ویزہ سرٹیفکیٹ کےلئے 3000، کرایہ داری فارم کیلئے 2000اور سرکاری ملازمین کی تصدیق کیلئے 1000 روپے فیس مقرر کی گئی ہے۔پشاور کے ایک شہری کا اپنی پریشانی ظاہر کرتے ہوئے کہنا ہے کہ "ہم پہلے ہی ہر چیز کےلئے پریشان ہیں، اگر اب ایک سرٹیفکیٹ کے لیے ہزاروں روپے دینے پڑیں تو ہم کہاں جائیں گے؟" یہ صرف ایک شخص کی آواز نہیںبلکہ صوبے بھر کے عوام کا درد ہے۔ پاکستان کے دیگر صوبوں میں اس حوالے سے صورتحال مختلف ہے۔ پنجاب میں پولیس خدمت مراکز (PKM) کے ذریعے کریکٹر سرٹیفکیٹ کے لیے 300 روپے فیس وصول کی جاتی ہے، جو خیبر پختونخوا کی فیس سے بہت کم ہے سندھ اور بلوچستان میں کریکٹر سرٹیفکیٹس کےلئے کوئی معیاری فیس نہیں ہے، اور اکثر یہ سروس مفت یا معمولی اخراجات کے ساتھ فراہم کی جاتی ہے۔ تاہم، کرایہ داری رجسٹریشن کے لیے سندھ میں کچھ اضافی اخراجات ہو سکتے ہیں، لیکن یہ خیبر پختونخوا کی طرح منظم فیس کے طور پر نہیں ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ خیبر پختونخوا نے دیگر صوبوں کے مقابلے میں زیادہ بھاری فیس عائد کی ہے، جو کہ غریب عوام کے لیے ناقابلِ برداشت ہے اگر ہم عالمی سطح پر اس معاملے کا جائزہ لیں تو صورتحال اور بھی دلچسپ ہے۔ کئی ترقی یافتہ ممالک میں پولیس سرٹیفکیٹس اور کلیرنس کی خدمات یا تو مفت ہیں یا پھر بہت کم قیمت پر فراہم کی جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر، برطانیہ میں پولیس کلیرنس سرٹیفکیٹ کےلئے بنیادی درخواست کی فیس £18 (تقریباً 5000 روپے) ہے، لیکن کم آمدنی والے افراد کےلئے یہ سروس مفت بھی ہو سکتی ہے۔ آسٹریلیا میں نیشنل پولیس چیک کی فیس $42 (تقریباً 8000 روپے) ہے، لیکن وہاں کے شہریوں کی آمدنی کے تناسب سے یہ رقم معمولی ہے اسی طرح، کینیڈا میں پولیس کلیرنس کےلئے فیس $25 سے $50 تک ہوتی ہے، لیکن سرکاری ملازمتوں یا رضاکارانہ کام کے لیے اکثر یہ سروس مفت فراہم کی جاتی ہے۔ ان مثالوں سے واضح ہوتا ہے کہ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں بھی شہریوں کے معاشی حالات کو مدنظر رکھا جاتا ہے، خیبر پختونخوا میں کرایہ داری فارم کی مفت فراہمی کے باعث لوگ باقاعدہ رجسٹریشن کرواتے تھے، جو کہ سکیورٹی کے لحاظ سے ایک مثبت قدم تھا لیکن اب 2000 روپے فیس کے نفاذ سے خدشہ ہے کہ لوگ اس عمل سے گریز کریں گے۔ نتیجتاً، غیر رجسٹرڈ کرایہ داروں کی تعداد بڑھ سکتی ہے، جو کہ سکیورٹی کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتی ہےپشاور جیسے شہرمیں کہ جہاں دہشت گردی کے واقعات کی پریشان کن تاریخ رہی ہے، وہاں اس طرح کے فیصلے غیر متوقع نتائج کا باعث بن سکتے ہیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ یہ فیسیں سسٹم کی بہتری، شفافیت اور جدید کاری کےلئے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا شفافیت کا بوجھ عام آدمی کے کندھوں پر ڈالنا ضروری ہے؟ کیا سسٹم کی بہتری کےلئے کوئی اور راستہ نہیں نکالا جا سکتا تھا؟ حکومتیں اکثر فنڈز کی کمی کا رونا روتی ہیں، لیکن جب بات سرکاری عہدیداروں کی مراعات یا غیر ضروری منصوبوں کی ہو تو کروڑوں روپے خرچ کرنے میں کوئی عار نہیں ہوتی۔ پھر عام آدمی سے چند ہزار روپے کیوں وصول کیے جا رہے ہیں؟ خیبر پختونخوا کے شہری پہلے ہی دہشت گردی، معاشی بدحالی اور مہنگائی کے ہاتھوں پریشان ہیں۔ صوبے کے پولیس اہلکار خود تنخواہوں کی کمی اور سخت حالات کا سامنا کر رہے ہیں، جیسا کہ آئی جی پی خیبر پختونخوا ذوالفقار حمید نے حال ہی میں اپنے خط میں ذکر کیا۔ جب پولیس خود مالی مسائل سے دوچار ہے، تو کیا یہ مناسب ہے کہ عوام سے اضافی فیس وصول کی جائے؟ حکومت کا بنیادی فرض اپنے شہریوں کو سہولیات فراہم کرنا ہے، نہ کہ ان کےلئے مشکلات پیدا کرنا۔ کریکٹر سرٹیفکیٹ، کلیرنس اور کرایہ داری فارم جیسی خدمات بنیادی ضروریات ہیں، جنہیں مفت یا کم سے کم قیمت پر فراہم کیا جانا چاہیے۔ اس کے علاوہ، درخواست کے عمل کو بھی آسان بنانا ہوگا۔ آج کے ڈیجیٹل دور میں، جب دنیا بھر میں آن لائن پورٹلز کے ذریعے یہ خدمات چند کلکس میں فراہم کی جا رہی ہیں، خیبر پختونخوا میں شہریوں کو اب بھی سرکاری دفتروں کے چکر کاٹنے پڑتے ہیں۔خیبر پختونخوا کی حکومت کو اس فیصلے پر فوری نظر ثانی کرنی چاہیے۔ عام آدمی پہلے ہی معاشی دباو¿ کا شکار ہے، اور ان خدمات پر فیس کا نفاذ ان کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے۔ یہ خدمات نہ صرف مفت ہونی چاہئیں بلکہ ان کے حصول کا عمل بھی آسان اور شفاف ہونا چاہیے۔ آن لائن پورٹلز اور ون ونڈو سہولیات متعارف کرائی جائیں، تاکہ شہریوں کو غیر ضروری دفتری چکر لگانے سے نجات ملے۔اس حوالے سے عام شہری منتظر ہے کہ وزیر اعلیٰ سردار علی امین گنڈاپور خود صورتحال کا نوٹس لیں۔