عرفان صاحب کی نئی کتاب

عرفان صاحب کی نئی کتا ب تاریخ چترال کا اردو ترجمہ ہے اور یہ انکی آٹھ کتا بوں کے بعد شائع ہوئی ہے گئی ہیں کلیات محو ی کو فارسی سے ترجمہ کیا گیا ہے تذکرہ شعرا ئے چترال اور چترال کے لوک گیت تحقیقی کتا بیں ہیں‘ فخر انبیاء نعتیہ کلا م کا مجمو عہ ہے جس پر ان کو حکومت پا کستان کی طرف سے سیرت ایوارڈ ملا، تاریخ چترال فارسی سے ترجمہ ہوا ہے میرا عرفان صاحب کیساتھ نصف صدی سے زیا دہ مدت کاساتھ ہے انیگلو ور نیکلر ہائی سکول چترال میں ہماری پہلی ملا قات 1965ء میں ہوئی 1970ء میں ہم دونوں نے ایک ہی کمرہ جما عت سے میٹرک پا س کیااسی طرح ہماری دوستی بڑھتی رہی‘ چند سال پہلے انہوں نے اپنے دادا علا مہ محمد غفران کی تاریخ چترال نسخہ 1921ء کا اردو ترجمہ کرنے کی خوا ہش کا اظہار کیا تو میں نے اس کی وجہ پو چھی انہوں نے کہا 1962ء میں میرے مر حوم چچا لیفٹیننٹ غلا مر تضیٰ اور خزانچی وزیر علی شاہ کی کاوشوں سے نئی تاریخ چترال کا جو نسخہ شائع ہو ا اسکے مطا لعے سے قاری کو معلوم نہیں ہوتا کہ کہاں تک علا مہ محمد غفران نے لکھا تھا اور کہاں سے غلا م مر تضیٰ نے لکھنا شروع کیا، 1921ء والے نسخے کا تر جمہ شائع ہو گا تو قدیمی نسخہ اپنی اصل حا لت میں سامنے آئیگا تحقیقی، تد وینی اور منطقی اعتبار سے یہ بات درست تھی اس سے پہلے جب میں علا مہ محمد غفران کی سو انح حیات پر کام کر رہا تھا تو مجھے ان کی یا دداشتوں کی ڈائری سے معلوم ہوا تھا کہ شہزادہ سردار نظام الملک کرنل لا کہارٹ کے دورہ چترال کے بعد انہی کی دعوت پر 1885ء میں ہندوستان کے دورے پر گئے‘دہلی، آگرہ اور کلکتہ میں ان کی ملا قاتیں ہندو ستانی ریا ستوں کے نوابوں سے ہوئیں‘ہر جگہ ان سے ریا ست چترال کی تاریخ کا سوال ہوا، واپس آکر انہوں نے امان الملک کو یہ بات بتائی تو امان الملک نے ان سے کہا کہ تم مر زا غفران کو لیکر ریا ست کی تاریخ پر کام شروع کرو، اس طرح تاریخ چترال کا پہلا مسودہ 1893ء میں مکمل ہوا‘دوسرا نسخہ 1919ء میں تکمیل کو پہنچا اور 1921ء میں شائع ہو کر آیا تو اس کی تمام کا پیاں جلا دی گئیں اس لئے اس کو تاریخ سوختہ کا نام بھی دیا جاتا ہے کتاب 12ابواب پر مشتمل ہے علا مہ محمد غفران نے واقعات کے تحقیق کیلئے عربی اور فارسی کی قدیم کتب سے استفادہ کیا ہے عرفان صاحب کا ترجمہ پڑھنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ 1921ء کے نسخے میں عہد رئیسہ کا ذکر صرف ایک پیرا گراف تک محدود ہے عہد رئیسہ کے 8حکمرانوں کا ذکر نہیں ہے جو 1962ء کے نسخے میں تفصیل کے ساتھ ملتا ہے 1921ء کے نسخے میں 1110ھ بمطا بق 1699عیسوی لکھاہے، بعض واقعات کے سن محض 18یا 20سال آگے پیچھے ہوئے ہیں جب 1893ء کا نسخہ سامنے آئیگا تو پتہ لگے گا کہ اس اختلاف کی وجہ کیا ہے، اگر فارسی اور اردو کو سامنے رکھ کر دونوں کا موازنہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ فارسی کی طویل رزمیہ نظمیں بھی تر جمہ نہیں ہوئیں اصل حا لت میں بھی اردو کا حصہ نہیں ہیں، نیز حکمرانوں اور درباروں کیلئے فارسی میں جو القاب 1921کے نسخے میں آئے ہیں ان کو اردو ترجمہ میں نہیں لیا گیا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مترجم نے اپنا بھی اور قاری کا بھی وقت بچا نے کی فکر کی ہے اور لفظی ترجمے پر با محا ورہ تر جمے کو فو قیت دی ہے تاریخ واقعات کے گرد گھو متی ہے افراد اور اشخاص کے گرد نہیں گھومتی جس طرح تانگے میں گھوڑے کو آگے باندھ کر تا نگہ اس کے پیچھے لگا یا جا تا ہے اس طرح لکھنے والا واقعہ کو لے لیتا ہے پھر چند نا م بھی اس واقعے کے ضمن میں آجا تے ہیں منشی عزیز الدین کی لکھی ہوئی تاریخ چترال بھی علا مہ محمد غفران کی فارسی تاریخ کا تر جمہ ہے البتہ مترجم نے 1893ء کے نسخے کا تر جمہ کیا ہے مصنف نے 1885ء سے 1919ء تک جن ما خذات سے استفادہ کیا ہے ان کا ذکر متن کے اندر آیا ہے ان میں سب سے اہم ما خذ شاہنامۂ سیر ہے‘ تنقیدی یا تحقیقی کتاب کی بڑی خوبی یہ ہو تی ہے کہ وہ نئے مبا حث کی بنیا د رکھے نئی کتا بوں کا پیش خیمہ بنے‘اگر تاریخ چترال کے نسخے کو سامنے رکھ کر نئی تحقیق سامنے لا نے کیلئے ایم فل یا پی ایچ ڈی سطح کا تحقیق مقا لہ لکھوائے تو تاریخ کے خفیہ گوشوں سے پر دہ ہٹا نے میں مدد ملے گی اور دیے سے دیا جلتا رہے گا۔