کل ہمیں ایک جاننے والے شخص نے ایک وڈیو ارسال کی جس کو دیکھ کر پرانی یادیں تازہ ہو گئیں‘وڈیو پشاور کے دلیپ کمار کی شادی کی تھی جو سائرہ بانو کے ساتھ بمبئی میں جسے آج کل ممبئی کہتے ہیں 1966ء میں قرار پائی تھی اس میں دلیپ کمار کو دولہا کے روپ میں سر پر پشاوری کلاہ لنگی پہنے گھوڑے پر سوار دلہن سائرہ بانو کے گھر کی طرف جاتے دکھایا گیا تھا اور بارات کے ساتھ ساتھ راجکپور کو بھی خوشی سے پھولے نہیں سماتے پیدل چلتے دکھایا گیا تھا‘یاد رہے کہ راج کپور کی جنم بھومی بھی پشاور تھی‘ دراصل ماضی بعید میں جب پشاور شہر کے گرد ایک فصیل ہوتی تھی اور اس کے چاروں طرف سولہ دروازے ہوا کرتے تھے تو اس فصیل کے اندر مختلف محلوں میں ہی دلہن اور دولہا کے گھر ہوتے تھے‘ بارات اکثر رات گئے روانہ ہوتی‘دولہز گھوڑے پر سوارہوتا‘ باراتیوں کے جھرمٹ میں بینڈ باجے والے بھی ساتھ ساتھ چلتے ہوتے اور جب وہ دلہن کے گھر پہنچتے تو وہاں ان کی خاطر تواضع کھانے کے ساتھ کی جاتی‘ اگر سردی کا موسم ہوتا تو پہلے میٹھی کشمیری چائے جسے عرف عام میں شیر چائے کہتے ہیں‘سے کی جاتی پھر نمکین اور میٹھے چاولوں کا دور چلتا جس میں قورمہ بھی شامل ہوتا اور روغنی روٹی بھی اور فرنی یا ماغوتی بھی‘ کھانے کا تمام سامان لکڑی سے بنی ہوئی ایک trayمیں رکھا جاتا جسے ہندکو زبان میں خونچہ کہتے‘ عام طور پر ایک خونچہ کے چاروں طرف تین یا چار باراتی بیٹھ کر کھانا تناول کرتے‘دلہن کو لانے کے واسطے دولہا خالی ڈولی بھی ساتھ لے جاتا جس میں بیٹھ کر رات گئے دلہن کو دولہا اپنے گھر لے جاتا اس ڈولی کو پہلوان نما چار پانچ افراد لمبے لمبے ڈنڈوں کی مدد سے اٹھا کر دلہن کو دولہا کے گھر لے جاتے کچھ اسی قسم کا انتظام دلیپ کمار کی شادی میں بھی کیا گیا جس کی وڈیو کاذکر ہم نے اوپر کی سطور میں کیا ہے‘دلیپ کمار چونکہ ایک کٹر پشاوری تھے انہوں نے بمبئی میں رہ کر بھی پشاور کی اس روایتی رسم کو ترک نہ کیا آج کل تو موٹر کاروں کا زمانہ ہے‘شادیاں ہوٹلوں میں ہو رہی ہیں اور ان کے روایتی انداز بدل چکے ہیں‘ بارات کی رات یا پھر دوسرے دن ولیمے کے موقع پر دیگ میں پکے ہوئے نمکین اور میٹھے چاولوں کا مزہ ہی کچھ اور تھا۔
‘گھنٹہ گھر پشاور کے اطراف میں چند بالا خانوں میں اس وقت کے مشہور گلوکار جنہیں عرف عام میں قوال کہا جاتا تھا کی رہائش تھی جن کو شادیوں میں اکثر مدعو کیا جاتا اور وہ بارات کی رات دولہا کے گھر میں اپنے فن کا مظاہرہ کرتے اب نہ وہ بالا خانے رہے اور نہ وہ قوال۔۔۔۔۔۔۔۔