سرحد کے بغیر، اوپن سورس، غیر مستحکم اور غیر مرکزی کرپٹو کرنسی تیز رفتاری سے مسلسل ترقی کر رہی ہے اور یہ روایتی مالیاتی نظام کی بنیادوں کے لئے بھی چیلنج ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آپ کسی ایسی چیز کو کیسے ریگولیٹ(کنٹرول)کر سکتے ہیں جو عمومی ضوابط کی خلاف ورزی کرنے کے لئے تخلیق کی گئی ہو‘ تاہم اس بات کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے کہ کرپٹو کرنسی سے متعلق قواعد و ضوابط بنائے جائیں‘ پاکستان عالمی سطح پر برپا کرپٹو انقلاب کا مشاہدہ کر رہا ہے اور تاحال کرپٹو اپنانے کی وجہ شکوک و شبہات ہیں۔ سال 2018 ء میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے ایک سرکلر جاری کیا تھا جس میں بینکوں کو کرپٹو لین دین کی سہولت سے روک دیا گیا لیکن یہ پابندی باضابطہ نہیں ہے۔ کسی بھی قانونی وضاحت یا روڈ میپ نہ ہونے کے باوجود پاکستان میں کرپٹو کرنسی مارکیٹ خاموشی سے آگے بڑھ رہی ہے تاہم یہ غیر منظم ہے اور غلط فہمی یا لین دین کے خطرات سے بھرپور ہے۔ قانونی خلل اور خطرات کے باوجود سال دوہزاراکیس تک پاکستان کا شمار کرپٹو اپنانے والے ممالک میں تیسرے نمبر پر پہنچ گیا تھا اور ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں پندرہ سے بیس ملین (ڈیڑھ سے دو کروڑ)فعال صارفین ہیں۔ حکومت نے حال ہی میں پاکستان کرپٹو کونسل (پی سی سی)کے قیام کے ساتھ کرپٹو
سیکٹر کو باضابطہ بنانے کے لئے اہم اقدامات کا اعلان کیا ہے۔ بلال بن ثاقب کی قیادت میں وزیر خزانہ اور گورنر اسٹیٹ بینک جیسی اہم شخصیات اِس کوشش کا حصہ ہیں۔ پی سی سی کے قیام کا مقصد قومی مالیاتی نظام میں ڈیجیٹل اثاثوں کو ذمہ دارانہ طور پر ضم کرنا ہے۔ بیننس کے بانی چانگ پینگ ژا کی اِسٹریٹجک اِیڈوائزر کے طور پر تقرری پاکستان کے عالمی کرپٹو معیارات سے ہم آہنگ ہونے کے ارادے کا بیان ہے۔ پھر بھی چیلنجز درپیش ہیں۔ مالیاتی خواندگی کی موجودگی اپنی جگہ پریشان کن ہے اور ادارہ جاتی صلاحیت بھی کمزور ہے‘کرپٹو منفرد نوعیت کی کرنسی ہے جسے ایک سے زیادہ ریگولیٹری نظام کی ضرورت ہے چونکہ بلاک چین پر مبنی ایپلی کیشنز تیزی سے پھیلتی ہے اور تقریبا روزانہ کرپٹو کرنسی کے استعمال کے نت نئے معاملات سامنے آتے ہیں تو اِس حوالے سے آنے والی ہر جدت غیر یقینی کی صورتحال اور خطرات لاتی ہے۔پاکستان کے لئے یہ چیلنج اور بھی زیادہ واضح ہیں۔ قانونی اور معاشی ترجیحات اور ادارہ جاتی صلاحیتوں کو آگے بڑھانے کے درمیان محتاط توازن قائم کرنا ہوگا۔ پھر بھی اس ابھرتے ہوئے شعبے کو جامع ریگولیٹری فریم ورک کی چھتری تلے لانے کی فوری ضرورت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ پاکستان کو سرحدوں کے بغیر ڈیجیٹل معیشت میں صارفین کی حفاظت کے لئے جدت طرازی کو فروغ دینا ہوگا بصورت دیگر پاکستان کرپٹو کرنسی کی عالمی دوڑ میں پیچھے رہ جائے گا۔ اِن پالیسی سفارشات کو مرحلہ وار اپنایا جانا چاہئے۔ پہلے مرحلہ بنیاد رکھنی ہوگی۔ ایک سینٹرل اوور سائٹ اتھارٹی کا قیام ہونا چاہئے۔ لائسنسنگ، ضوابط کی تعمیل، کوآرڈی نیشن اور جاری پالیسیز کے لئے واضح مینڈیٹ رکھنے والی کرپٹو ریگولیٹری باڈی قائم ہونی چاہئے۔ دوسرا، اے ایم ایل سی ایف ٹی (اینٹی منی لانڈرنگ انسداد دہشت گردی کی فنانسنگ) کے معیارات کو ایف اے ٹی ایف کی ہدایات سے ہم آہنگ کرنا ہوگا۔ مضبوط اقتصادی اصولوں، لین دین کی نگرانی اور نفاذ کے ساتھ کرپٹو مخصوص انسداد منی لانڈرنگ اور انسداد دہشت گردی کی مالی اعانت کا فریم ورک بھی تیار ہونا چاہئے۔ تیسرا، قانونی تعریفوں اور ریگولیٹری ہدایات کی وضاحت ہونی چاہئے۔ ابہام ختم
کرنے کے لئے کرپٹو اثاثوں، سروس فراہم کنندگان اور بلاک چین ایپلی کیشنز کی وضاحت ہونی چاہئے اور چوتھا، ورچوئل ایسٹ سروس پرووائیڈرز (وی اے ایس پیز)کو لائسنس دیا جانا چاہئے۔ صارفین کے تحفظ اور ریگولیٹری تعمیل یقینی بنانے کے لئے ایکس چینجز والیٹس کی رجسٹریشن اور لائسنسنگ کی ضرورت ہے۔ دوسرے مرحلے میں لائسنسنگ ماڈل کو اپناتے ہوئے جدت متعارف کروائی جائے جیسا کہ سنگاپور اور جاپان میں ڈوئل ٹیئر سسٹم ہے۔ دوم، ریگولیٹری سینڈ بکس اور پائلٹ پروگراموں کو وسعت دی جانی چاہئے۔ تیسرا بلاک چین کے استعمال کے لئے قانونی فریم ورک بنایا جائے۔ تیسرا مرحلہ تحفظ، ریزولوشن اور ویلیو کے بارے میں ہونا چاہئے کیونکہ کرپٹو اور بلاک چین سے متعلق تنازعات کے حل کیلئے تیز رفتار ثالثی فریم ورک کی بھی ضرورت ہوتی ہے‘چوتھا اور آخری مرحلہ اسٹریٹجک انضمام کے بارے میں ہونا چاہئے۔ بٹ کوائن کان کنی کو منظم کرنے اور اِس کی حوصلہ افزائی کے بارے میں اقدامات واضح اور وضع ہونے چاہئیں‘ ڈیجیٹل اثاثوں کی دنیا تیزی سے عالمی معیشتوں کو نئی شکل دے رہی ہے اور پاکستان کو نازک لمحے کا سامنا ہے۔(بشکریہ دی نیوز۔ تحریر مریم سلیم۔ ترجمہ ابوالحسن اِمام)