دنیا بھر کے سیاحوں کا رخ ملائشیا کی جانب

     ملائشیا کیلئے ہماری فلائٹ لاہور ائرپورٹ سے ہے ٹورکمپنیاں اپنی بچت کرنے کیلئے سستی ترین ائرلائنز اور زیادہ ٹرانزٹس کو پسند کرتی ہیں اس لئے کہ ان ائرلائنز میں کرایہ نہایت سستا ہوتا ہے اور نہ صرف ان کو کچھ منافع ملتا ہے  بلکہ ٹورسٹ پر بھی سیروتفریح کا بوجھ کم ہو جاتا ہے یعنی کم خرچ بالانشین والا محاورہ پورا ہوجاتا ہے‘ ہمارے گروپ میں بہت عالم فاضل ڈاکٹرز‘ انجینئرز‘ براڈ کاسٹرز سائنسدان اور فوجی جرنیل بھی شامل ہیں زیادہ تر لوگ اپنی اپنی ملازمتیں بخوبی پوری کرچکے ہیں لیکن ابھی ان کی صحت اتنی اچھی ہے کہ وہ بہت پر جوش اور صحت مند ہیں ساٹھ سال کی عمرمیں ریٹائرمنٹ اس لحاظ سے بے انتہا فائدہ مند ہوتی ہے کہ آپ ابھی جوان اور صحت مند ہوتے ہیں اپنے خاندان اور اپنی ذات کیلئے فائدہ مند ہوتے ہیں اور بے شمار ایسے کام نمٹا سکتے ہیں جن کو اپنی سخت ملازمت کے دوران پیچھے ہی پیچھے چھوڑ چلے آئے ہیں کراچی کمپنی کے بس اڈے پر ہماری لگژری بس تیار کھڑی ہے جوہم ساتھیوں کو لاہور ائرپورٹ لے جانے کیلئے منگوائی گئی ہے وقت کی پابندی ہماری سوسائٹی کا اعلیٰ ترین شمار ہے ویسے بھی ائرپورٹ سے جہاز میں بیٹھنے کا وقت مقرر ہوتا ہے بس گروپ کے ساتھیوں سے بھر چکی ہے ملائشیا سے میرا تعارف اتنا ہے کہ مہاتیر محمد ملائشیا کے ایک معتبر لیڈر ہیں مہاتیر محمد اور چند دوسرے مسلمان رہنماؤں کے نام مسلمانوں کے نہایت قابل قائدین میں شمار ہوتے ہیں مہاتیر محمد کی ایک کتاب میرے زیر مطالعہ رہ چکی ہے ویسے وہ بے شمار کتب کے مصنف ہیں ان کی ایک نہایت مشہور کتاب دی وائس آف ایشیامیں نے پڑھی ہے جس میں ایک جگہ وہ پاکستان کی آزادی کی تحریک کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ”میں بہت باریک بینی کیساتھ اس تحریک کا جائزہ لے رہا ہوں اور ان قائدین کی محنت اور کوششوں کے راستوں کے بارے میں دیکھ رہا ہوں تاکہ ہمارا ملک ملائشیا بھی انگریز کی غلامی سے نجات پاسکے“ واضح رہے کہ ملائشیا پاکستان سے دس سال بعد انگریز کی غلامی سے آزاد ہوا‘ مہاتیر محمد پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر ہیں لیکن انہوں نے اپنے ملک کیلئے بے انتہا قربانیاں دیں اور سیاست میں قدم رکھا تاکہ وہ اس طرح کے اقدام کریں جس طرح وہ سوچتے ہیں اور اپنے ملک کو ترقی کی منزلوں تک پہنچائیں اور انہوں نے ایسا ہی کیا پاکستان سے دس سال بعد آزاد ہونے والا ملک آج جس تیزی سے ترقی کر رہا ہے وہ قابل دید اور قابل تقلید ہے لاہور تک کے سفر کے دوران میں ڈاکٹر مہاتیر محمد کے ملائشیا کو پاکستان سے تجزیہ کرتے ہوئے گزار رہی ہوں آج دنیا بھر کے سیاحوں کا رخ ملائشیا کی جانب ہے تو پھر کوئی وجہ تو ہوگی کہ یہ ملک مغرب اور مشرق کے سیاحوں کو اپنی جانب بلا رہا ہے بس میں مجھے بہت سے نئے لوگ نظر آئے سیاحت بہت لوگوں کی خواہش ہوتی ہے لیکن یہ ایک مہنگا شوق ہے نہ صرف ڈالرز میں ادائیگیاں ہوتی ہیں بلکہ آپ کو ایک بھرپور وقت‘ اچھی صحت اور برداشت کی بھی ضرورت ہوتی ہے‘ ہمارے منیجر ایک فوجی آفیسر ہیں نظم و ضبط کے نہایت پابند اور سیاحت کو کامیاب کرنے کیلئے پرجوش رہتے ہیں ان کی بڑی بڑی مونچھیں دیکھ کران سے بات کرتے ہوئے شاید گھبراہٹ ہو یعنی اجنبی انسان کو ایسا لگتا ہے لیکن چونکہ میں جانتی ہوں کہ بظاہر سخت نظر آنے والا یہ انسان کس قدر ہمدرد‘ نرم دل رکھنے والا اور سہولت بہم پہنچانے والا ہے آج بھی انتظام اپنے عروج پر ہے‘ ہر وہ آسانی پہنچانے کی کوشش کی جارہی ہے جس سے احساس خوشگوار ہو‘ خواتین کا سامان گروپ کے نوجوان لڑکوں نے بس کے اندر سلیقے سے رکھا اور ان کو آرام دہ سیٹیں فراہم کیں لاہور تک کا سفر تقریباً چھ گھنٹوں میں طے ہوا جب ہم لاہور پہنچے تو شام ہو چکی ہے‘ڈیرہ ہوٹل میں لاہور چیپٹر کے جناب سعید انجم کھوکھر نے ہمارا استقبال کیا انہوں نے یہاں زبردست ضیافت کا انتظام کیا ہوا ہے‘ہمارا گروپ بیالیس لوگوں پر مشتمل ہے خواتین بڑی تعداد میں شریک ہیں بعض خواتین اپنے شوہروں کے ساتھ ہیں اور بعض تنہا ہیں لیکن گروپ میں آپ کسی کو تنہا نہیں کہہ سکتے‘ میوزیکل پروگرام بھی ہمارے اعزاز میں ترتیب دیا گیا مجھے بھی اسٹیج پر مدعو کیاگیا کہ میں کچھ کہوں‘ میں نے اپنی سوسائٹی کے حوالے سے مفت کی پابندی کی تعریف کرتے ہوئے ایک واقعہ سنا دیا کہ ایک دفعہ اسلام آباد میں تہذیبوں کے حوالے سے سیمینار منعقد ہوا‘ اس سیمینار کے مہمان خصوصی ایک وفاقی وزیر تھے ان کو شاید اس بات کا قطعاً احساس نہ تھا کہ ہماری سوسائٹی وقت کی پابندی میں کتنی حساس ہے‘ وہ حسب معمول مہمان خصوصی کی طرح تاخیر سے پہنچے‘ تقریب عین وقت پر شروع ہو کر اختتام کے قریب تھی وہ تقریب میں داخل ہوئے اور یہ سب دیکھ کر ہکا بکا ہوگئے‘عموماً ایسا ہوتا ہے کہ تقریبات کو مہمان خصوصی کیلئے کئی کئی گھنٹے تاخیر سے شروع کیا جاتا ہے لیکن ہمارے صدر سوسائٹی جناب ذوالفقار علی قریشی کو مہمان خصوصی سے زیادہ سوسائٹی کیلئے بنائے گئے اصول مقدم ہوتے ہیں اس لئے تقریب شروع ہونے سے پہلے چاہے دس مہمان سامنے کرسیوں پر کیوں نہ بیٹھے ہوں تقریب تلاوت کلام پاک سے شروع ہو جاتی ہے تمام آئے حاضرین نے میرے اس واقعے کو بڑی دلچسپی اور حیرت سے سنا‘ میں نے اپنی بہت سی کتب لاہور چیپٹر کو تحائف کے طور پر دیں جس کیلئے مجھے بہت زیادہ ستائش سے نوازا گیا‘ہم دوبارہ بس میں بیٹھ گئے اور لاہور کے علامہ اقبال ائرپورٹ کی طرف روانہ ہوگئے یہاں رات کو ہماری فلائٹ کو الالمپور کیلئے تیار ملے گی۔