کے پی جامعات‘ روکھی سوکھی کا دور

 ایک ایسے وقت میں جبکہ خیبرپختونخوا کی قدرے پرانی یونیورسٹیاں بالخصوص قدیم جامعہ پشاور بیسک پے کی حالت کو پہنچ گئی  ہے حکومت نے ایک بار پھر تعلیمی ایمرجنسی کا مژدہ سنادیا ہے‘ دوسری طرف جامعہ کے اساتذہ ایک بار پھر احتجاج کیلئے پرتول رہے ہیں اور وہ اس لئے کہ اساتذہ کی ترقی کیلئے موجودہ قواعد و ضوابط کو بالائے طاق رکھتے ہوئے متعلقہ سرکاری محکمے نے اپنے ایک مراسلے میں کہا ہے کہ ترقیاں تب ہوں گی جب آپ لوگ ایٹا ٹیسٹ سے گزر کر اپنے آپ کو ترقی کے مستحق ثابت کرینگے اب اس میں ایک عجیب و غریب بات یہ ہے کہ جامعہ کے قیام کے بعد ترقی کرتے ہوئے گریڈ20اور اس سے اوپر تک پہنچنے والے کتنے اساتذہ نے ایٹا ٹیسٹ دیا ہے؟ دوسری بات یہ کہ شاید محکمہ کے علم میں یہ بات نہ ہو کہ ایٹا ٹیسٹ بنانے والے کون لوگ ہوتے ہیں؟ آیا یونیورسٹی کے سبجیکٹ سپیشلسٹ ٹیچرز  نہیں ہوتے؟ جامعہ کے اساتذہ بار بار اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ 9فروری کو صوبے کے انتظامی سربراہ اور ایکٹ ترمیم کے تحت جامعات کے نئے چانسلر کے اعلانیہ منظوری کے بعد محکمہ اعلیٰ تعلیم کے اس جیسے مرا سلوں‘ شرائط اور این او سی (نان ابجکشن سرٹیفیکیٹ) کو روکنے کا جواز کیا ہے؟ اس بابت حکومت سے بارہا تحریری رابطے بھی کئے گئے مگر بے سود جبکہ اساتذہ نمائندوں کے مطابق متعلقہ وزیر اور حکام اساتذہ ترقی کے مسئلے پر ان سے ملاقات اور مذاکرات سے بھی گریزاں ہیں شاید اس لئے اساتذہ تنظیم نے فیصلہ کرتے ہوئے این او سی کے اجراء کیلئے مزید ایک ہفتہ مہلت دیدی ہے جس کے بعد غالباً ایک  بار پھر کلاسز بائیکاٹ کا سلسلہ شروع ہوگا اساتذہ کے مطابق وہ قطعی طور پر یہ نہیں چاہتے کہ تدریس کاسلسلہ معطل ہو مگر حکومت کا طرز عمل انہیں اس اقدام پر مجبور کر رہاہے اب ایسے میں کہ یونیورسٹی کی تعلیم عام آدمی اور متوسط طبقے کی دسترس سے کافی آگے نکل کر اب محض سرمایہ دار اور برسراقتدار شرفاء طبقے تک محدود ہوگئی ہے جب اساتذہ تدریس کو بوجوہ خیرباد کہیں گے تو کیا متاثرین مالدار طبقہ نہیں ہوگا؟ ویسے بھی ابھی حال ہی میں روزے گزر گئے ہیں جس کے دوران یونیورسٹی میں تدریسی اور غیر تدریسی دونوں طرح کے کام یا ڈیوٹیاں برائے نام رہی ہیں‘ دوسری جانب یونیورسٹی کی حالت کچھ اس قدر دیدنی ہے کہ روزوں کے مہینے کی تنخواہیں نصف یعنی ایڈہاک ریلیف اور الاؤنسز کے بغیر دی گئی تھیں مگر شاید اپنی ساری جمع پونجی کو اکٹھا کرکے انتظامیہ نے اپریل کی تنخواہوں سے قبل مارچ کے بقایا جات ادا کر دیئے اب توقع یہ ہے کہ رواں مہینے کے اواخر تک شاید وفاقی حکومت کی سہ ماہی قسط آجائے‘البتہ یہ معلوم نہیں کہ سال رواں کی دوسری قسط کتنی ہوگی؟ کیونکہ بسا اوقات تو30اور40 کروڑ کے درمیان ہوا کرتی ہے اب سوال یہ ہے کہ یونیورسٹی نے تو اپنے ذرائع سے گزشتہ مہینے کے بقایا جات ادا کر دیئے ہیں تو اپریل کے تقریباً40 کروڑ کے اخراجات میں جو کمی ہوگی وہ کہاں سے پوری ہوگی؟ جہاں تک صوبائی حکومت کا تعلق ہے تو باوجود اس کے کہ آئینی طور پر سنبھالنا  صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے مگر کیا کہئے کہ حکومت کی طرف سے جامعات بالخصوص پشاور یونیورسٹی کو ہمیشہ سرخ جھنڈی دکھائی جارہی ہے ایسے میں بعض متعلقہ لوگوں کا یہ سوال بھی جواب طلب ہے کہ چانسلر نے جامعہ کیلئے50 کروڑ روپے گرانٹ کا جو اعلان کیا تھا اس کا کیا بنا؟ معلوم ہوا ہے کہ متعلقہ حکام نے جامعہ کی انتظامیہ سے کہا ہے کہ 50کروڑ والی گرانٹ کی بات دہرانے سے باز آجائیں کیونکہ ہمارے پاس کوئی ٹکہ پیسہ نہیں جہاں تک اساتذہ کی ترقی کا مسئلہ ہے تویہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ ترقی کیلئے متعلقہ قانونی باڈیز اور قواعد و ضوابط موجود ہیں اور یہ بات بھی اظہرمن الشمس ہے کہ سال2018 سے جامعہ کے چند ایک پرسنل گریڈ والوں کو چھوڑ کر کسی ٹیچر کو ترقی نہیں ملی جبکہ متاثرین میں 80 سے زائد پی ایچ ڈی ہولڈر خواتین اساتذہ بھی منتظر بیٹھی ہیں۔