پشاور مسائل‘ موازنہ اور حل

 خیبرپختونخوا کا صدر مقام پشاور، جو اپنی تاریخی اہمیت، ثقافتی تنوع اور تجارتی سرگرمیوں کے لئے مشہور ہے، دو بڑے مسائل کی لپیٹ میں ہے: ٹریفک کی شدید بدنظمی اور گندگی کا بڑھتا ہوا عفریت۔ یہ مسائل نہ صرف پشاور بلکہ صوبے کے دیگر بڑے شہروں جیسے مردان، ایبٹ آباد اور سوات میں بھی عام ہیں۔ اگرچہ اس کے ذمہ دار شہری اور کاروباری ادارے ہیں، لیکن قوانین کی پاسداری اور خدمات کی فراہمی کی بنیادی ذمہ داری خیبرپختونخوا اور شہری حکومتوں پر عائد ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے، قوانین موجود ہونے کے باوجود ان پر عملدرآمد نہ ہونے کی وجہ سے شہری بدستور مشکلات کا شکار ہیں۔ ہم یہاں اختصارکے ساتھ ان مسائل کا جائزہ لیتے ہوئے ترقی پذیر ممالک سے موازنہ کرتے ہیں اور عملی حل کی تجاویز پیش کرتے ہیں۔ اگر بات ٹریفک کی بدنظمی کی کریں تو قواعد ہیں، عملدرآمد نہیں۔پشاور کی سڑکوں پر ٹریفک کا عالم یہ ہے کہ ہر روز لاکھوں شہری گھنٹوں ٹریفک جام میں پھنس کر وقت اور ایندھن ضائع کرتے ہیں‘ جی ٹی روڈ‘ یونیورسٹی روڈ‘چارسدہ روڈ یعنی ہر جگہ رکشوں، موٹر سائیکلوں، گاڑیوں اور چنگ چی رکشوں کا ہجوم ہے۔ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی عام ہے۔ سگنل توڑنا، غلط پارکنگ، تیز رفتاری اور غیر رجسٹرڈ رکشوں و چنگ چی موٹر سائیکلوں کا استعمال روزمرہ کا معمول ہے‘ ایک مطالعے کے مطابق1998 ء سے 2009ء تک پشاور میں گاڑیوں کی تعداد میں 126.4فیصد اضافہ ہوا جبکہ سڑکوں کی توسیع صرف 0.85فیصد ہوئی۔قوانین کی بات کریں تو پلازوں کے لئے لازمی پارکنگ، رکشوں کے پرمٹ  سمیت غیر قانونی پارکنگ کے جرمانوں کی سزائیں موجود ہیں لیکن بدعنوانی اور غفلت کی وجہ سے متعلقہ ادارے ان پر عملدرآمد نہیں کرتے۔ ٹریفک پولیس اور دیگر حکام رشوت لے کر قانون شکنی کو نظر انداز کرتے ہیں‘ اربوں روپے خرچ ہونے کے باوجود نتائج صفر ہیں اور شہری بدستور ٹریفک کے مسائل سے دوچار ہیں۔پشاور میں بس ریپڈ ٹرانزٹ (BRT) زو سروس کے ساتھ سائیکل ٹریک اور پیدل راستوں کی تعمیر پر اربوں روپے خرچ کئے گئے، لیکن یہ سہولیات زمینی حقائق سے مطابقت نہ رکھنے کی وجہ سے ناکارہ ہیں۔ مغربی ماڈلز کی نقالی کی گئی، لیکن مقامی حالات جیسے رکشوں کی بڑھتی تعداد، غیر منظم پارکنگ اور شہریوں کی عادات کو نظر انداز کیا گیا۔ نتیجتاً سائیکل ٹریک پر گاڑیاں کھڑی ہوتی ہیں اور پیدل راستوں پر دکانیں یا کوڑے کے ڈھیر نظر آتے ہیں۔گندگی اور صفائی کی صورت حال شہر کی زبوں حالی کی  داستان ہے۔پشاور اور خیبرپختونخوا کے دیگر شہروں میں گندگی کا مسئلہ بھی سنگین ہے۔ واٹر اینڈ سینی ٹیشن سروسز پشاور (WSSP)کے مطابق، شہر میں روزانہ ہزاروں ٹن کوڑا پیدا ہوتا ہے، لیکن اس کا صرف 60/70 فیصد ہی جمع کیا جاتا ہے۔ باقی کوڑا کھلے میدانوں یا ندیوں میں پھینک دیا جاتا ہے، جو ماحولیاتی اور صحت عامہ کے مسائل کو جنم دیتا ہے`کاروباری ادارے، خاص طور پر دکانیں اور ریستوران، اپنا کوڑا سڑکوں پر پھینکتے ہیں۔کوڑے دان ناپید ہیں اور جہاں ہیں وہاں شہری بھی کوڑا دان استعمال کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ شہریوں کو بھی چاہئے کہ وہ اخلاقی طور پر اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں تاہم حکومت اور اس کے متعلقہ اداروں کا فرض ہے کہ اس سلسلے میں شہریوں میں شعوراجاگر کرنے کے ساتھ  موجود قوانین پر عملدرآمد یقینی بنائیں۔ بدعنوانی اور نااہلی کی وجہ سے صفائی کے نظام پر خرچ ہونے والے اربوں روپے ضائع ہو رہے ہیں۔ یہ شہریوں کے ٹیکس کا پیسہ ہے جو حکومت چلانے کے لئے استعمال ہوتا ہے، لیکن عوام کو اس کا کوئی فائدہ نہیں مل رہا۔ترقی پذیر ممالک سے موازنہ ان مسائل سے نمٹنے کے لئے اہم ہے اور  ترقی پذیر ممالک تقلید کی  جا سکتی ہے۔ انڈونیشیا کے شہر جکارتہ کی مثال لے لیں۔وہاں حکومت نے ٹریفک کے مسائل سے نمٹنے کے لئے "TransJakarta" بس ریپڈ ٹرانزٹ سسٹم کو مقامی حالات کے مطابق ڈھالا۔ رکشوں اور موٹر سائیکلوں کے لئے مخصوص لینز بنائی گئیں اور تھری ان ون پالیسی کے تحت مصروف اوقات میں گاڑیوں میں کم از کم تین مسافر ہونے لازمی قرار دیئے گئے۔ بدعنوانی سے نمٹنے کے لئے جکارتہ نے ٹریفک پولیس کی نگرانی کے لئے الیکٹرانک سسٹم متعارف  کرایا جو پشاور کے لئے قابل عمل ہے۔بھارت کے شہر احمد آباد نے اپنے BRT سسٹم  کو کامیابی سے نافذ کیا۔ سائیکل ٹریک اور پیدل راستوں کو مقامی حالات کے مطابق ڈیزائن کیا گیا اور غیر قانونی پارکنگ کے خلاف سخت جرمانے عائد کئے گئے۔ احمد آباد نے بدعنوانی کم کرنے کے لئے نجی کمپنیوں کو پارکنگ مینجمنٹ کا ٹھیکہ دیا اور اس پر کنٹرول اور شفافیت کے لئے تھرڈ پارٹی سے معاہدہ کیا جو شفافیت کو یقینی بناتی ہے‘گندگی کے مسئلے پر، فلپائن کے شہر ڈیوا ایک مثال ہے۔ ڈیوا نے کوڑے کی چھانٹی اور ری سائیکلنگ کو لازمی قرار دیا اور شہریوں کو تربیت دی۔ غیر قانونی کوڑا پھینکنے پر سخت جرمانے عائد کئے گئے اور صفائی کے نظام کو نجی کمپنیوں کے حوالے کیا گیا۔ بدعنوانی سے بچنے کے لئے اداروں کی کارکردگی کی باقاعدہ جانچ کی جاتی ہے۔پشاور اور خیبرپختونخوا کے شہروں میں ان مسائل سے نمٹنے کے لئے چند آسان اقدامات جو کئے جا سکتے ہیں ان میں ٹریفک پولیس اور WSSPکی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لئے الیکٹرانک نگرانی اور ای-ٹکٹنگ سسٹم متعارف کیا جائے‘ بدعنوانی کے خلاف زیرو ٹالرنس پالیسی اپنائی جائے، جیسا کہ جکارتہ میں کیا گیا زو پشاور BRT کو وسعت دی جائے اور سائیکل ٹریک کو احمد آباد کی طرح مقامی حالات کے مطابق دوبارہ ڈیزائن کیا جائے۔ غیر قانونی پارکنگ اور قبضوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔غیر قانونی پارکنگ کے جرمانوں کو سختی سے نافذ کیا جائے اور نجی کمپنیوں کو پارکنگ مینجمنٹ کا ٹھیکہ دیا جائے، جیسا کہ احمد آباد میں کیا گیا۔ ڈیوا کی طرح کوڑے کی چھانٹی اور ری سائیکلنگ کو لازمی قرار دیا جائے۔ غیر قانونی کوڑا پھینکنے پر جرمانے عائد کئے جائیں اور WSSPکو جدید آلات سے لیس کیا جائے۔ عوامی آگاہی مہمات کے ذریعے شہریوں کو قوانین کی پاسداری کی ترغیب دی جائے۔ سکولوں اور مساجد میں پروگرام شروع کئے جائیں۔ ٹیکس کے پیسوں کا درست استعمال یقینی بنانے کے لئے اداروں کی کارکردگی کی باقاعدہ آڈٹنگ کی جائے۔ بدعنوانی کے مرتکب اہلکاروں کے خلاف سخت کارروائی ہو۔پشاور اور خیبرپختونخوا کے شہروں میں ٹریفک کی بدنظمی اور گندگی کے مسائل شہریوں کی زندگی کو مشکل بنا رہے ہیں۔ قوانین موجود ہیں، لیکن بدعنوانی اور غفلت کی وجہ سے عملدرآمد نہیں ہو رہا۔ شہریوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ قوانین کی پاسداری کریں، لیکن حکومت اور اس کے اداروں کا فرض ہے کہ وہ ان پر عملدرآمد یقینی بنائیں۔ یہ شہریوں کا ٹیکس کا پیسہ ہے جو ان مسائل کے حل کیلئے خرچ ہوتا ہے، لیکن نتائج مایوس کن ہیں۔ ترقی پذیر ممالک جیسے جکارتہ، احمد آباد اور ڈیوا کے تجربات سے سیکھتے ہوئے، پشاور کو ایک منظم اور صاف ستھرا شہر بنایا جا سکتا ہے۔ یہ وقت ہے کہ حکومت اپنے وعدوں پر عمل کرے، اداروں کو شفاف بنائے، اور شہریوں کے ساتھ مل کر ایک بہتر مستقبل کی بنیاد رکھے۔