قول و فعل میں تضاد

ایک منچلے قاری نے اگلے روز ہم سے ایک چشم کشا سوال پوچھا ہے وہ سوال یہ ہے‘ ہر سال 21 اپریل کو ہمارے ارباب اقتدار شاعر مشرق علامہ اقبال کے یوم وفات پر قوم کو اپنے خطاب میں یہ درس دیتے ہیں کہ اسکو ان کے افکار پر چلنا چاہئے لیکن اگر انکے اپنے بودو باش اور رہن سہن اور روز مرہ کے معمولات زندگی کے طریقہ کار پر ایک نظر غائر ڈالی جائے تواس میں تو شاعر مشرق کے افکار پر عمل درآمد کی ہلکی سی جھلک بھی نظر نہیں آ تی اگر ناصح خود لوگوں کو نصیحت تو کرے پر خود اس پر عمل پیرا نہ ہو تو اس پر پھر یہ کہاوت لاگو ہوتی ہے اوروں کو نصیحت خود میاں فصیحت‘ ایک اور جملہ معترضہ بھی پڑھ لیجئے گا ایک مرتبہ ایک شخص نے اپنے ملازم سے کہا کہ وہ اپنے دشمن کو قتل کرنا چاہتا 
ہے لہٰذا وہ اس کام کے کروانے کا کوئی اہتمام کرے‘وہ ملازم عقلمند تھا اس نے کہا آپ ایسا کام نہ کریں کہ کل کلاں آپ پر قتل کا کیس بن جائے‘میں آپ کو ایک آ سان اور محفوظ راستہ بتاتا ہوں نہ ہینگ لگے گی نہ پھٹکڑی اور رنگ بھی چوکھا آئے گا‘ آپ ایسا کریں کہ جس کو قتل کروانا چاہتے ہیں اس کو ایک اچھی سی گاڑی خرید دیں کہ جس میں وہ روزانہ گھوما پھرا کرے اور اس کیلئے ایک اچھا باورچی رکھ لیں جو اسے روزانہ لذیذ کھانے پکا کر کھلایا کرے وہ جب مرغن کھانے کھانے لگے گا اور پیدل چلنے کی جگہ موٹر کار میں گھوما پھرے گا تو خودبخود کئی عوارض میں مبتلا ہو کر جلد مر جائے گا۔پنجاب اور سندھ کی حکومتوں بلکہ یوں کہئے ن لیگ اور پی پی کے بعض لیڈروں کے کینال واٹر کے منصوبے پر ایک دوسرے کیخلاف تابڑ توڑ زبانی حملوں سے ملک کی سیاسی فضا کافی مکدر ہو گئی ہے جو کل کلاں وقافی حکومت کی بقاء کیلئے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے اس لئے ان دونوں پارٹیوں کی قیادت کو اس کشمکش کو ختم کرنے کیلئے ٹھوس اقدام اٹھانے کی فوری ضرورت ہے۔