جب سے شادی ہال میں شادیوں کا چلن عام ہوا ہے تو شادی کیلئے چھٹی کے دن کی شرط ختم ہو گئی ایک وقت تھا کہ شادیاں ہفتہ‘ اتوار یا جمعہ کی چھٹی کے زمانے میں جمعرات اورجمعہ کے دن کو ہوا کرتی تھیں اور محلے میں کوئی بھی بڑا گھر شادی کی رسومات کیلئے مانگ لیا جاتا جو بہت ہی خوشی اور خوش دلی کے ساتھ مل جاتا یا پھر گلی میں دونوں سائیڈز پر پردہ یا قناتیں لگا کر مہمانوں کے بیٹھنے اور کھانے کی جگہ بنا لی جاتی مہمانوں کیلئے سارے محلے والے اپنی اپنی بیٹھک کے دروازے بھی کھول دیاکرتے‘ کسی ایک گھر کی خوشی پورے محلے کیلئے خوشی کی تقریب ہو تی ہر شخص ان رسومات میں دل و جان سے اس لئے بھی شریک ہوتا کہ پشاوری روزمرہ کے مطابق”ہمسایہ ماں پیو جایا“ (یعنی پڑوسی ’سگے بھائیوں کی طرح ہوتے ہیں) مگرپھر زمانہ بدلا اور ایسا بدلا کہ جہاں کل ہمسایہ گھر کا فرد گنا کرتا تھا وہاں اب ایک ہی گھر میں یار لوگ ہمسایوں کی طرح اپنا چولہا ہانڈی الگ کر کے رہنے لگے ہیں اس پر مستزاد یہ کہ خوشی کی ساری رسمیں بھی گلی محلوں سے اٹھ کر یہاں وہاں بنے ہوئے شادی ہالوں میں بٹ گئی ہیں‘ اسی وجہ سے شادی ہالوں کے رواج پانے کے بعد شادیوں کے ساتھ جڑے چھٹی کے دنوں کا حوالہ بھی ختم ہو گیا اور شادی کا دن ہال کی دستیابی سے مشروط ہو گیا‘یادش بخیر اشرف روڈ پر معروف ادبی و سیاسی شخصیت سید مظہر گیلانی مرحوم کی رہائش گاہ میں ان کے چھوٹے بیٹے فوق گیلانی کی شادی کی تقریب میں بہت سے شاعر ادیب شریک تھے وہ ینگ تھنکرز فورم اور حلقہ کے باقاعدہ آنے والے دوستوں میں شامل تھے ان کے اپنے گھر کے وسیع و عریض ڈرائنگ روم میں کتنے ہی مشاعرے ہوا کرتے بلکہ ان کے گھر کے احاطہ میں ایوب صحرائی مرحوم کی معروف ادبی تنظیم بزم غالبؔ کے پندرہ روزہ طرحی مشاعرے بھی ایک زمانے تک باقاعدگی سے ہوتے رہے ہیں‘ میں اسلام آباد سے ان مشاعروں میں شرکت کیلئے بطور خاص آیا کرتا تھا‘یہ 70 کی دہائی کے اوائل کا ذکر ہے فوق گیلانی کی جس دن بارات تھی اور ابھی وہ گھر کے اندر سہرا بندی کے مرحلہ سے گزر رہے تھے اور باہر ہم دوست ان کے انتظار میں تھے کہ اسی دوران معروف شاعر اور صحافی مسعود انور شفقیؔ آئے اور میرے قریب ہی بیٹھ گئے اور دو منٹ کے بعد ہی اٹھ کر کہنے لگے مجھے دو تین جگہ اور بھی حاضری دینا ہے وہ آئیں توانہیں میرا بتا دینا‘ میں نے ہنستے ہوئے کہا کہ میں بتا دوں گا کہ آپ آئے
تھے مگر یہ کہہ نہیں سکتا کہ آپ کو دو تین اور شادیوں پر بھی جانا ہے انہوں نے حیران ہو کر پوچھا کیوں؟ میں نے کہا کہ شفقی صاحب مجھے نہیں یقین کہ پورے پشاور میں آج کوئی اور شادی ہو گی کیونکہ آج سوموار کا دن ہے اور نہ جانے فوق گیلانی کے من میں کیا سمائی کہ چھٹی کے دن کی بجائے ورکنگ ڈے پر بارات رکھ لی ہے ایسا کبھی نہیں ہوتا بفرض محال اگر شہر میں کوئی ایک شادی اور بھی ہو تو کوئی مان بھی لے یہ دو تین شادیاں کون مانے گا۔ انہوں نے مسکرا کر سر گوشی میں کہا ’سمجھا کرو نا‘ گویا تب چھٹی کے دن کے سوا شادی بہت کم کسی اورد ن کو ہوا کرتی‘ پہلے پہل یہ تبدیلی گوشت کے فروخت سے جڑے ہوئے لوگوں نے کی کیونکہ منگل بدھ کو گوشت کے ناغہ کی وجہ سے ان کی چھٹی ہوتی ہے‘ لیکن اس
کے بعد پھر دنوں کی کوئی قید نہیں رہی اگر چہ اب شہر میں ہر طرف شادی ہالوں کو جال بچھا ہوا ہے اور ان شادی ہالز میں شادی کے علاوہ بھی ہر طرح کی تقریبات ہو تی ہیں دوست ِ عزیز خالد ایوبؔ چونکہ ایک معروف سماجی شخصیت ہونے کے ساتھ ساتھ ادب اور ثقافت دوست مزاج رکھتے ہیں اس لئے ان کے شادی ہال ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں کیلئے بھی ہمیشہ دستیاب ہوتے ہیں‘پشاور کے بڑے ادبی و ثقافتی مرکز نشتر ہال کی تعمیر سے پہلے چونکہ شادی ہالوں کا بھی وجود نہیں تھا اس لئے بڑے پیمانے پر ہونے والی ثقافتی تقریبات کیلئے بسا اوقات سینما ہال بک کرائے جاتے تھے‘ایک زمانہ تھا کہ پشاور کی تمام تر ثقافتی سرگرمیاں ریڈیو کے بے بدل صداکار شکیل ارشد‘ شمیل چوہان(لندن)‘حمید پرویز‘ ڈاکٹراسماعیل قمر اور فردوس جمال جیسے دوستوں کے دم قدم سے آباد تھیں اس حوالے سے میری یادداشت میں جو پہلا بڑا پروگرام آ رہا ہے وہ ریڈیو کے بے بدل صداکار شکیل ارشد اور ان کے دوستوں کی تنظیم (غالباً سرحد آرٹس کونسل) کا ایک ایوارڈ شو تھاجو لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے بالمقابل ناز سینما
ہال میں ہوا تھاجس کیلئے انہیں کوہاٹ کی ایک ٹیکسٹائل ملزکا تعاون حاصل تھا یہ ایک بہت ہی بھرپور شو تھاجسے دیر تک یاد رکھا گیا تھا(دوست عزیز ریاض صدیقی کے مطابق‘ کل کے بہت ہی فعال‘محفل ساز اور متحرک دوست شکیل ارشد ان دنوں بہت چپ ہو گئے ہیں اوراپنی پیرانہ سالی کی بیماریوں سے یکہ و تنہا نبرد آزماہیں) ناز سینما کے ساتھ ساتھ کچھ شوز شہر کے ایک دو سینما ہالوں میں بھی ہوئے ایک سٹیج ڈرامہ ”لالے دی جان“ کیپٹل سینما پشاور صدر میں سٹیج ہوا تھا لیکن سب سے زیادہ موسیقی کے شوز پی اے ایف سینما ہال (پی اے ایف انسٹی ٹیوٹ) میں ہوئے اور یہ محض اتفاق ہے کہ ان سب شوزکی پیشکار ایک سماجی شخصیت سعیدہ الیاس تھی جن کا بیرون کوہاٹی گیٹ فرنٹیئر نام کا ایک نجی سکول بھی تھا اور مسلسل ہونے والے موسیقی کے ان شوز کا کمپیئر میں تھا‘ جیوپیٹر اور سٹنگز سمیت اس زمانے کے سارے بینڈز اور گروپس کے شوز پی اے ایف سینما میں ہم نے کئے‘ اسی طرح کے شوز بعد میں شہر کے اکلوتے پنج ستاری ہوٹل میں بھی ہوئے جن کیلئے حمیرا ارشد‘ وارث بیگ‘ فریحہ پرویز‘ فاخر‘ علی حیدر‘ رحیم شاہ اور ابرارالحق کو پشاور میں نے بلایا‘ اسی طرح میں نے بشریٰ انصاری اور معین اختر کے ساتھ مل کر بھی اسی پنج ستاری ہوٹل میں شوز کئے ان میں سے اکثر شوز کے پیشکار ڈاکٹر اسماعیل قمر تھے جو طب کے مختلف شعبوں کے تحت ہونے والی کانفرنسوں کی آخری شام کو ہوا کرتے تھے ایک شو معروف ماہر امراض چشم ناصر سعید نے بھی ترتیب دیا تھا اور ایک شو انجینئرز کی ایک تنظیم نے بھی اسی پنج ستاری ہوٹل کے سبزہ زار پر کیا تھا اس کیلئے لاہور سے میں نے حمیرا چنا کوبلایا تھا‘پھر نشتر ہال بننے کے بعد تو وہی ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں کا مرکز بن گیا تھا‘ ثقافتی سرگرمیاں توخیر پھر اس ہال تک محدود ہو گئیں مگر شادیاں واپس محلوں کی طرف نہ آئیں اور اب بھی شادی سے مہینوں پہلے شادی کے گھر والے اچھے اور مناسب شادی ہال کی تلاش شروع کر دیتے ہیں اور خود بھلے سے کسی بھی علاقے میں ہوں شادی ہال کیلئے انہیں بھی دور پار کے علاقے میں جانا پڑتا ہے اور رشتہ داروں کو بھی گرمی سردی میں بادل نا خواستہ ان ہالز کا رخ کرنا پڑتا ہے کبھی کبھی مجھے یہ صورت حال طارق احد نواؔز کے نصف صدی پہلے کے کہے ہوئے اس شعر کی علامتی تعبیر و تفسیر لگنے لگتی ہے۔
کبھی اک آیا تھا گلدان بیچنے والا
چلی وہ رسم کہ پھول اب بھی در بدر جائیں