عالمی معیشت ایک نازک موڑ پر ہے‘ امریکہ کی ”سب سے پہلے امریکہ“ پالیسی، چین کی بڑھتی ہوئی معاشی طاقت اور خلیجی ممالک کی سٹرٹیجک اہمیت نے عالمی تجارت کے پرانے ڈھانچے کو غیر موثر کر دیا ہے‘ عالمی تجارت کی تنظیم (ڈبلیو ٹی او) کے قواعد اب جدید چیلنجز سے نمٹنے کے قابل نہیں رہے‘ اس صورتحال میں پاکستان کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ امریکہ، چین اور خلیجی ممالک کے ساتھ فعال اور سٹرٹیجک تعلقات قائم کرے تاکہ اس معاشی ہلچل کو فائدے میں استعمال کرے تاہم اس کے لئے فوری مگر سوچ سمجھ کر اقدامات کی ضرورت ہے‘ امریکہ کے ساتھ تعاون اس کا بنیادی عنصر ہے کیونکہ امریکہ کے ساتھ پاکستان کا تجارتی سرپلس (3 بلین ڈالر) ہے، اسی وجہ سے دیگر ممالک کے ساتھ امریکی صدر ٹرمپ نے پاکستان سے درآمدات پر 29 فیصد ٹیرف عائد کر دیئے ہیں‘ اس سے نمٹنے کے لئے آئی ایم ایف کے پروگرامز میں امریکی اثر و رسوخ کو استعمال کیا جا سکتا ہے‘پاکستان کو آئی ایم ایف سے 7 بلین ڈالر کے موجودہ پروگرام کو پورا کرنے کے لئے امریکی حمایت کی ضرورت ہے‘ بدلے میں پاکستان امریکی تیل اور گیس کی محدود درآمد (تقریباً 1 بلین ڈالر سالانہ) پر غور کر سکتا ہے جو تجارت کے توازن کو بہتر بنائے گا‘ اس کے علاوہ آئی ٹی سروسز، سافٹ ویئر ڈویلپمنٹ اور دہشت گردی کے خلاف تعاون جیسے شعبوں میں شراکت داری کو فروغ دیا جا سکتا ہے‘امریکی منڈیوں میں پاکستانی مصنوعات‘ جیسے کہ سرجیکل آلات اور ٹیکسٹائل کے لئے نئی رعایتیں حاصل کرنے کے لئے سفارتی کوششیں تیز کی جانی چاہئیں‘ اس کے ساتھ ساتھ چین کے ساتھ تجارت اور مارکیٹ تک رسائی کے لئے بھی انتہائی تیزی کے ساتھ رابطوں کی ضرورت ہے کیونکہ چین پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے اور چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبہ اس تعلقات میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے‘ چین نے حال ہی میں واضح کیا کہ وہ امریکی دباؤ میں آ کر اپنی تجارت کم کرنے والے ممالک کے خلاف سخت اقدامات کرے گا تاہم ان ممالک کے لئے ایک نرم گوشہ کا اعادہ کیا ہے جو اس کے ساتھ مل کر تجارتی روابط بڑھانے کے خواہشمند ہیں‘
پاکستان کو اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے چین کی بڑھتی ہوئی صارفین کی منڈی تک رسائی بڑھانی چاہئے‘ پاکستانی زرعی مصنوعات، جیسے کہ آم‘ چاول اور کینو چین کی منڈی میں بہت زیادہ مانگ رکھتے ہیں‘ 2024 ء میں پاکستان نے چین کو 1.2 بلین ڈالر کی زرعی برآمدات کیں اور اسے 2027 تک 3 بلین ڈالر تک بڑھانے کا ہدف رکھنا چاہئے‘ اس کے لئے چین کے ساتھ فری ٹریڈ ایگریمنٹ (ایف ٹی اے) کے دوسرے مرحلے کو مکمل کرنا ضروری ہے‘ اسی طرح پاکستانی سپورٹس گڈز‘ خاص طور پر فٹ بال اور کرکٹ کے سامان کو چین کی سپورٹس مارکیٹ میں فروغ دیا جا سکتا ہے‘ سیالکوٹ کی سپورٹس
انڈسٹری کو چینی ای کامرس پلیٹ فارمز‘ جیسے کہ علی بابا‘ ٹیمو (TEMU) اور شین (SHEIN) کے ذریعے مارکیٹنگ کی ضرورت ہے‘ سی پیک کے تحت خصوصی اقتصادی زونز (ایس ای زیڈ) میں چینی سرمایہ کاری کو زراعت اور مینوفیکچرنگ کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے تاکہ پاکستانی مصنوعات کو عالمی معیار کے مطابق بنایا جا سکے‘ دوسری طرف خلیجی ممالک پاکستان کے تیل اور گیس کے بڑے سپلائر ہیں اور مالی امداد کے اہم ذرائع بھی ہیں‘سعودی عرب نے 2025ء میں 1.2 بلین ڈالر کی فنانسنگ سہولت کو بڑھایا، جبکہ یو اے ای اور قطر نے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کے لئے ڈیپازٹس فراہم کئے‘ امریکی تیل کی درآمد کے ممکنہ فیصلے سے خلیجی ممالک کے تحفظات کو دور کرنے کے لئے پاکستان کو تیل کے علاوہ دیگر شعبوں میں تعاون کو بڑھانا چاہئے‘ جیسا کہ خلیجی ممالک کی فوڈ سکیورٹی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے پاکستانی زرعی مصنوعات جن
میں چاول، گندم اور ڈیری پروڈکٹس کی برآمدات بڑھائی جا سکتی ہیں۔ سعودی عرب کی ویژن 2030 ء کے تحت سیاحت اور انفراسٹرکچر کے منصوبوں میں پاکستانی کنسٹرکشن کمپنیوں اور لیبر فورس کے لئے مواقع موجود ہیں‘ یو اے ای کی ٹیکنالوجی اور فنانشل سیکٹر میں سرمایہ کاری کو پاکستانی آئی ٹی کمپنیوں کے ساتھ جوڑا جا سکتا ہے۔ خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی) کے ذریعے خلیجی سرمایہ کاروں کو پاکستان کی قابل تجدید توانائی، جیسے کہ سولر اور ونڈ پاور میں سرمایہ کاری کے لئے راغب کیا جا سکتا ہے‘ اس سے خلیجی ممالک کے ساتھ معاشی تعلقات مضبوط ہوں گے اور تیل کی درآمد میں کسی ممکنہ کمی کے اثرات کم ہوں گے‘ عالمی حالات کے مطابق پاکستان کو اپنی معاشی پالیسی کو وقت کی ضرورت کے مطابق بنانے کے لئے علاقائی تعاون پر بھی توجہ دینی چاہئے‘ سارک اور ای سی او جیسے پلیٹ فارمز کے ذریعے بھارت‘ بنگلہ دیش اور ایران کے ساتھ تجارت بڑھائی جا سکتی ہے‘ وسطی ایشیا‘ یورپ اور افریقہ میں پاکستانی ٹیکسٹائل اور چمڑے کی مصنوعات کے لئے نئی مارکیٹنگ حکمت عملی اپنائی جانی چاہئے اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کو اپنی معاشی بنیادیں مضبوط کرنے کے لئے اندرونی اصلاحات پر توجہ دینی ہو گی۔ ٹیکس سسٹم کو بہتر بنانا، برآمدی صنعتوں کو ٹارگٹڈ سبسڈی دینا اور توانائی کے شعبے میں خودکفالت کے منصوبوں کو تیز کرنا ضروری ہے‘ اس سے پاکستان عالمی معاشی دباؤ کے باوجود اپنی معیشت کو مستحکم رکھ سکتا ہے‘ یہ عالمی معاشی ہلچل پاکستان کے لئے ایک چیلنج بھی ہے اور ایک سنہری موقع بھی۔ امریکہ کے ساتھ آئی ایم ایف پروگرامز اور تجارت کے توازن کے لئے فعال تعاون، چین کی بڑھتی ہوئی منڈی تک زرعی اور اسپورٹس مصنوعات کی رسائی اور خلیجی ممالک کے ساتھ زراعت، تعمیرات اور آئی ٹی شعبوں میں شراکت داری سے پاکستان اپنی معاشی پوزیشن کو مضبوط کر سکتا ہے اگر پاکستان سفارتی تعلقات میں فوری روابط اور معاشی اصلاحات کے ساتھ آگے بڑھے تو وہ اس بحران کو نہ صرف سنبھال سکتا ہے بلکہ ایک مضبوط معاشی شراکت دار کے طور پر عالمی سطح پر ابھر سکتا ہے۔