پشاور کے بیٹے کا اعزاز

پشاور کی ایک بڑی شخصیت کو امریکن یو نیور سٹی سے دوسری بار اعزاز ی ڈگری ملنا پا کستان کے مشہور شہر کے لئے بہت بڑا اعزاز ہے تازہ ترین خبر میں کہا گیا ہے کہ امریکی سٹیٹ اوبا یو کی یونیورسٹی آف ٹو لیڈو نے فرزند پشاور کو ڈاکٹر آف سائنس کی اعزازی ڈگری 2020ء میں دی تھی اس سال ڈاکٹر آف لیٹر زاینڈ ہیومن سائنسزکی اعزازی ڈگری کے لئے نا مزد کیا 3 مئی 2025ء یونیورسٹی کی کانووکیشن تقریب میں ڈاکٹر سید امجد حسین کو دوسری اعزازی ڈگری سے نواز ا جائے گا یہ ڈگری آپ کو بین المذاہب ہم آہنگی کے لئے خد مات‘ کالم نگاری‘ خاکہ نگاری‘ سفر نا مہ نگا ری اور دیگر اصنا ف ادب میں آپ کی شاندار خد مات کے اعتراف میں دی جا رہی ہے یو نیور سٹی حکام نے دوسری بار آپ کو اعزازی ڈگری کے لئے نامزد کر تے ہوئے اس منفرد اعزاز کے لئے آپ کی منفرد خد مات کا ذکر کیا ہے اور لکھا ہے کہ ڈاکٹر حسین نے بیک وقت حیا تیاتی سائنس اور انسا نی فنون و ادب کے لئے خد مات انجام دی ہیں کسی واحد شخصیت میں یہ دونوں صلا حیتیں بہت کم یکجا ہو تی ہیں ڈاکٹر سید امجد حسین پیشے کے لحا ظ سے کار ڈیو تھوریسک سر جن ہیں اور دنیا بھر میں شہرت رکھتے ہیں انہوں نے یو نیور سٹی آف ٹو لیڈ و میں پڑھا یا اور پیچیدہ آپریشنوں کے ذریعے لا کھوں مریضوں کو نئی زند گی دی‘ سر جری کے شعبے میں ان کے نام سے کئی اوزار اور طریقے متعارف ہوئے جن کو ”حسین ڈیوائسز“ کہا جا تا ہے انہیں یو نیورسٹی آف ٹو لیڈو میں طویل خد مات کے بعد کار ڈیو ویسکولر سر جری اور لائف سائنسز کے شعبے میں پرو فیسر ایمر یٹس کا عہدہ دیا گیا ہے جو کسی بھی یو نیور سٹی میں تدریسی شعبے کا سب سے بڑا عہدہ ہوتا ہے نیز کا لج آف آرٹس لیٹرز اینڈ ہیو مینیٹیز میں بھی پرو فیسر ایمریٹس مقرر کیا گیا ہے بیک وقت ایک ہی یونیور سٹی کے دوشعبوں کا پرو فیسر ایمریٹس ہونا بجا ئے خو د ایک منفرد اعزاز ہے‘ ان کے سوانحی 
حالات میں ایسے اعزازات کی کوئی کمی نہیں ایک مصروف ترین سرجن ہونے کے باو جود انہوں نے کئی خطرنا ک سیا حتی مہموں میں حصہ لیا ایسی ہی ایک مہم انڈس کی مہم تھی جس میں 1987ء سے 1994ء تک وہ ٹیم انڈس میں شامل رہے اس ٹیم نے دریائے سندھ کے منبع سکر دو سے بحیرہ عرب تک کشتیوں میں سفر کیا‘ 1996ء میں آپ نے مغر بی تبت میں دریائے سندھ کے منبع تک پہنچنے والے پہلے مہم جو کا اعزاز حاصل کیا جسے 1997ء میں امریکی کا نگریس کے ربکارڈ کا حصہ بنا یا گیا اپنی مہم جو ئی کے سلسلے میں آپ نے چترال کے پہاڑوں کو بھی کنگھا لا‘ آپ کے دوستوں کا کہنا ہے کہ 60 سال امریکہ میں رہتے ہوئے پشاور کی محبت آپ کے دل میں خوشبو کی طرح بسی ہوئی ہے ہر سال بلا نا غہ پشاور آتے ہیں‘ پرانے دوستوں سے ملتے ہیں تعلیمی اداروں میں جا تے ہیں خیبر میڈیکل یو نیور سٹی کو وقت دیتے ہیں پشاور کا ہر با سی آ پ کا دوست ہے تا ہم ڈاکٹر ظہور احمد اعوان‘ ڈاکٹر نثا ر احمد اور ڈاکٹر الف خان کے نا م نما یاں ہیں جو ہر میر ان کا بچپن کا ساتھی تھا ڈاکٹر سید امجد حسین کا گھر مسلم مینا بازار کے محلے میں جبکہ جوہر میر کا گھر اندرون سرکی گیٹ میں تھا پشاور کا امر سہ اور چترال والا کٹو را ٹو لیڈو میں بھی آپ کی یا دوں میں ہے اپنی تحریروں میں آپ نے بڑے دکھ کے ساتھ اس بات کا ذکر کیا ہے کہ خیبر میڈیکل کا لج سے ایم بی بی ایس کرنے کے بعد انگلینڈ سے سر جری میں سپیشلائزیشن کر کے واپس آ گئے تو پشاور کے بڑے ہسپتال میں آپ کو کام کا مو قع نہیں دیا گیا 1960ء کے عشرے کی وہ بے رخی آپ کے امریکہ جا نے کی وجہ بنی امریکہ میں آپ کو ہا تھوں ہا تھ لیا گیا 1970ء کے عشرے میں ایک بار پھر اپنے شہر کے با سیوں کی خد مت کا جذبہ لے کر پشاور آگئے لیکن بیورو کریسی نے ان کا راستہ روکے رکھا مجبو راً دور دیس کو اپنا وطن بنا نا پڑا علا مہ اقبال نے جگنو کے لئے ایک مصرعہ کہا تھا وہ آغا جی پر صادق آتا ہے ”غر بت میں جا کے چمکا گمنام تھا وطن میں“ پشاور کے بیٹے کو امریکہ کی یونیور سٹی کی طرف سے دوسری بار ڈاکٹریٹ کی اعزا زی ڈگری ملنا پشاور کے لئے بڑا اعزاز ہے۔