رواں ماہ پیش آنے والے غیرمعمولی واقعات میں موسمیاتی تغیرات سرفہرست رہے بالخصوص جب وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کا موسم چند منٹوں میں ہی خراب ہو گیا۔ ایک لمحے میں وہ ایک عام دوپہر تھی۔ پھر اچانک ژالہ باری شروع ہو گئی، گاڑیوں کے شیشے ٹوٹ گئے، کھڑکیاں ٹوٹ گئیں اور سب سے زیادہ پریشان کن بات یہ رہی کہ ژالہ باری سے پورے شہر میں لگے سولر پینلز تباہ ہو گئے۔ لوگ صدمے سے دیکھ رہے تھے کہ ان کی شمسی چھتیں، جو سبز ترقی کی علامت تھیں چکنا چور ہو گئیں۔ یہ طوفان بادوباراں صرف باعث حیرت نہیں بلکہ بیدار ہونے کی گھڑی ہے۔ گزشتہ دس برس کی بات کی جائے تو اسلام آباد کو پاکستان کا سب سے صاف شہر قرار دیا جاتا رہا ہے۔ ماحول دوستی کو برقرار رکھنے کے لئے گھروں، کاروباری اداروں اور تجارتی عمارتوں پر سولر پینلز لگائے گئے۔ نئی ٹیکنالوجی نے شہر کو صاف ستھرے مستقبل کی امید دلائی لیکن اب، اچانک ژالہ باری کے بعد، سب حیران ہیں۔ کیا شمسی پینلز اس قسم کے شدید موسم سے بچنے کے لئے خاطرخواہ مضبوطی سے بنائے جاتے ہیں؟ ژالہ باری سے اسلام آباد میں نقصانات ہوئے لیکن یہ نقصانات کسی بھی شہر میں ہو سکتے ہیں۔ یہ صرف مرمت کی لاگت یا صفائی کے لئے گندگی کے بارے میں نہیں ہے۔ توجہ طلب ہے کہ زیادہ تر شمسی پینلز عام بارش اور دھوپ کو برداشت کرنے کے لئے بنائے جاتے ہیں اور شاید تھوڑی بہت ژالہ باری بھی برداشت کر سکتے ہیں لیکن اسلام آباد کا طوفان زیادہ شدت کا تھا جس میں ’گولف‘ کی گیندوں جتنے بڑے برف سے بنے سخت پتھر برسے اور زیادہ تر پینلز اِس قسم کی ژالہ باری کو برداشت کرنے کے لئے نہیں بنائے جاتے۔ ہمیں اپنے آپ سے پوچھنے کی ضرورت ہے کہ اگر ہمارے صاف توانائی کے نظام ان طوفانوں کو سنبھال نہیں سکتے تو مستقبل کتنا محفوظ ہے؟ اسلام آباد کا تجربہ پورے پاکستان کے لئے انتباہ ہے کہ ماحول دوست ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کیسے کی جائے۔ ژالہ باری نے اسلام آباد کے سولر پینلز کو شدید نقصان پہنچایا بلکہ الیکٹرک وہیکل چارجنگ اسٹیشنوں کو سپورٹ کرنے والی جگہیں بھی تباہ ہوئیں۔ ژالہ باری اتنی شدید تھی کہ اس نے سولر پینل کو تھامے ہوئے دھاتی فریمز کو بھی ٹیڑھا کردیا۔ ابتدائی تخمینوں کے مطابق کروڑوں روپے کا مالی نقصان ہوا ہے کیونکہ مرمت کی ضرورت نہ صرف پینلز کو ہے بلکہ جن ڈھانچوں (فریمز) پر سولر پینل نصب ہیں وہ بھی ٹوٹ چکے ہیں۔ اتنے سارے سولر پینلز کام سے باہر ہونے کی وجہ سے کئی علاقوں میں بجلی کی طویل بندش کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور اسلام آباد کے معمولات زندگی تاحال بحال نہیں ہوئے ہیں۔زیادہ تر سولر پینلز معتدل قسم کی ژالہ باری کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار کردہ ٹمپرڈ گلاس کا استعمال کرتے ہیں لیکن یو ایل 617330 جیسے صنعتی معیار عام طور پر صرف 25 ملی میٹر تک ہی ژالہ باری برداشت کر سکتے ہیں، جو اسلام آباد میں گولف گیند کے سائز کی ژالہ باری ہوئی وہ سولر پینلز کے لئے بہت زیادہ ہے۔ حالیہ برسوں میں، مینوفیکچررز نے پتلے شیشے کے ساتھ بڑے پینلز تیار کرکے لاگت میں کمی کو ترجیح دی‘ جس نے انہیں زیادہ نازک بنا دیا ہے۔ یہاں تک کہ معمولی طوفان کے بعد بھی سولر پینلز خراب ہو جاتے ہیں اور اِن میں مائیکرو دراڑیں پر جاتی ہیں جن سے اِن کی پیداواری صلاحیت اور عمر کم ہو جاتی ہے۔ چھت پر لگے شمسی پینلز کی ژالہ باری سے خرابی اور نقصانات صرف مالی معاملہ نہیں بلکہ یہ سولر کے ڈیزائن اور منصوبہ بندی کا بھی معاملہ ہے اور اس کا ڈیزائن کے حوالے سے بھی جائزہ لینا چاہئے۔عالمی سطح پر، ریگولیٹرز زیادہ بہتر معیارات پر عمل کرتے ہوئے لچک دار قسم کے شمسی پینلز بناتے ہیں۔ پاکستان میں بھی ایسا ہی ہونا چاہئے۔ ثابت شدہ بین الاقوامی معیارات کو اپنانا، آب و ہوا کی جانچ والی ٹیکنالوجیز کو لازمی بنانا اور عوامی شعور اجاگر کرنا ضروری اقدامات ہیں۔ فعال منصوبہ بندی اور ریگولیشنز کے بغیر، تیز رفتار ہوا اور ژالہ باری جیسی انتہاؤں کا مقابلہ کرنا ممکن نہیں ہوگا۔اسلام آباد میں حالیہ ژالہ باری نے ہماری گرین انرجی منتقلی میں اہم کمزوری کو اجاگر کیا ہے۔ چھتوں پر شمسی توانائی کے بنیادی ڈھانچے میں مضبوط معیار اور تیاری کا فقدان سامنے آیا ہے۔ گھریلو سرمایہ کاری کے تحفظ اور طویل مدتی توانائی یقینی بنانے کے لئے، پاکستان کو فوری طور پر سولر پینلز کے سرٹیفکیشن پروٹوکولز پر عمل درآمد یقینی بنانا ہوگا تاکہ بدلتے ہوئے موسموں اور تغیرات جیسے تلخ حقائق کا مقابلہ کیا جا سکے۔ اِس سلسلے میں عوامی آگاہی کی مہمات بھی ضروری ہیں تاکہ صارفین کو قیمت کے عوض بہتر مواد فراہم کیا جا سکے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر سعدیہ عشرت ستی۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)