گو میں رہا رہین ِ ستم ہائے روز گار

پاکستانی امریکن کمیونٹی آف کولوراڈو کے احباب اپنے لو گوں کیلئے اکثر و بیشتر سماجی اور تفریحی تقریبات کا انعقاد کرتے رہتے ہیں، گزشتہ دنوں تنظیم نے اپنے اپنے شعبے کے ماہرمعالجین کے محبت بھرے رضاکارانہ تعاون سے فری چیک اپ کے حوالے سے ایک میڈیکل کیمپ لگایا تھا جہاں پورا دن ڈینور میں مقیم پاکستانی فیمیلز طبی چیک اپ اور مشوروں کیلئے آتے رہے‘ وہیں میری ملاقات ڈاکٹربہرام خان سے بھی ہوئی‘ ڈاکٹر بہرام پشاور کے معروف و مقبول معالج ڈاکٹر الف خان کے فرزند ہیں اور والد کی طرح بہت محبتی‘ ہمدرد اور ملنسار ہیں۔دو سال پہلے جب میں ڈینور آیا تھا تو میرے قیام کا دورانیہ دو ایک مشاعروں کی وجہ سے بڑھ گیا تھا جس کی وجہ سے پریشانی یہ ہوئی کہ ساتھ لائی ہوئی میری روزمرہ کی میڈیسن ختم ہونے لگیں تھیں‘ لیکن خوش قسمتی سے شکاگو اور ہیوسٹن میں ہونیوالے اْن عالمی مشاعروں میں میرے علاوہ پاکستان سے عباس تابش اور شکیل جاذب بھی مدعو تھے‘اس لئے میں نے شکیل جاذب سے رابطہ کیا کہ میری میڈیسن لانا ہے‘انہوں نے فو راً حامی بھر لی‘برخوردار ذیشان ناصرؔ نے انہیں میڈیسن پہنچا دیں‘سو میں بے فکر ہو گیا‘ میں نیو جرسی سے شکاگو پہنچا تو عباس تابش نے بتایا کہ بالکل آخری لمحوں میں شکیل جاذب کا پروگرام ملتوی ہو گیا‘اب مسئلہ یہ در پیش تھا کہ میرے پاس میڈیسن چند دنوں کی رہ گئی تھیں ا ور امریکا میں آپ کو میڈیسن بغیر ڈاکٹر کے نسخے ملتی نہیں ہیں‘ میں نے ٹولیڈو میں مقیم معروف ادیب و دانشور دوست عزیز ڈاکٹر سید امجد حسین سے رابطہ کیا‘انہوں نے ڈینور میں رہنے والے ڈاکٹر بہرام خان کا فون نمبر بھیجا کہ ان سے رابطہ کریں بہت ہی محبت کرنے والے ڈاکٹر بہرام خان نے نہ صرف خاصے کڑے مراحل سے گزرنے کے بعد نہ صرف امریکا میں دستیاب متبادل میڈیسن کا نسخہ بنا کر دیا بلکہ خود ہی مارکیٹ سے وہ مہنگی میڈیسن خرید یں اور اس پر مستزاد کہ وہ ایک لمبی ڈرائیو کر کے فراز کے گھر آئے اور مجھے دیر تک ان میڈیسن کے استعمال کے حوالے سے سمجھاتے بھی رہے‘خیر اب تو یہ پاکستان میں بھی ممکن نہیں کہ کوئی معالج میڈیسن اٹھا کر آپ کے پاس گھر آ جائے(یادش بخیر ہمدم دیرینہ مرحوم ڈاکٹر صلاح الدین دوستوں کی بیماری میں نصف شب کو بھی دوا اٹھائے آ جاتے تھے‘یہ رسم ان کے ساتھ ہی ختم ہو گئی) اور باہر کی دنیا میں توخیر کسی عام سے شخص کے پاس بھی اتنا وقت نہیں ہوتا کہ وہ قریب ترین عزیز کے گھر بھی وزٹ کرے‘اس کیلئے اسے ویک اینڈ کا انتظار کرنا پڑتا ہے، مگر چونکہ ڈاکٹر بہرام خان اپنے ساتھ اپنی تہذیب اور اپنے والدین کی تربیت لے کر امریکا آئے ہوئے ہیں اس لئے اپنی پیشہ ورانہ مصروفیات کے باؤجود وہ چلے آئے تھے‘ اس ملاقات میں انہوں نے یہ بھی بتایا کہ وہ کچھ ہی دن پہلے اپنے والد گرامی ڈاکٹر الف خان کے ساتھ ٹیکساس میں معروف شاعر و افسانہ و کالم نگار ارشاد صدیقی کی عیادت کیلئے گئے تھے، کسی بھی پشاوری دوست سے ارشاد صدیقی مرحوم کی یہ شاید آخری ملاقات تھی کیونکہ اس کے بعد جلد ہی وہ بچھڑ گئے تھے، بہر حال ڈاکٹر بہرام خان اس میڈیکل کیمپ میں دن بھر اپنے بہت سے دوست ڈاکٹرز کے ہمراہ اپنی کمیونٹی کیلئے رضا کارانہ خدمات انجام دیتے رہے، اسی طرح پاکستانی امریکن کمیونٹی آف کولو راڈو کے دوستوں نے ابھی عید الفطر کے موقع پر ایک شاندار چاند رات میلے کابھی بندوبست کیا ہوا تھا جس میں چوڑیوں اور مہندی لگانے کے اسٹالز سے لے کر ملبوسات کے سٹالز تک سب کچھ ایک ہی چھت کے نیچے تھا‘بہت گہما گہمی تھی وہاں بہت سے احباب ملے، ان تقاریب کا اہتمام و انصرام کرنے میں پیش پیش ذکاء ضیاء‘محمد سلمان اور اسرارالحق سے بھی وہیں ملاقات ہوئی یہ سارے دوست بہت عمدہ ادبی ذوق رکھتے ہیں اور میں جب بھی ڈینور آتا ہوں ایک بھرپور ادبی نشست کا انعقاد ضرور کرتے ہیں،اب کے بھی افراز علی سیّد کی رہائشگاہ پر ایک بہت ہی عمدہ شعری نشست سجائی گئی تھی جس میں اسرار الحق نے حسب معمول بہت اچھی نظامت کی اس تقریب کے ہفتہ بعد پاکستانی امریکن کمیونٹی آف کولو راڈو کے دوستوں نے ایک بار پھر مجھے ایک مقامی ریستوران ”نان اینڈ کری“ میں ایک عشائیہ کیلئے مدعو کیا جہاں نور آفریدی‘ ذکاء ضیا‘محمد سلمان‘افراز علی سیّد اور اسرارالحق کے ساتھ دو نئے دوستوں سے بھی ملاقات ہوئی ان میں سے ایک تو پولیس کے محکمہ کے سیّد جی تھے جنہوں نے جلد ہی کولو راڈو پولیس کے ہیڈکوارٹر کی سیر کی دعوت دی اور دوسرے دوست الطاف صدیقی تھے جنہوں نے بتایا کہ وہ پشاور یونیورسٹی کے انجینئرنگ کالج (اب انجینئرنگ یونیورسٹی) کے گریجویٹ ہیں‘مزید تعارف سے معلوم ہوا کہ وہ اس زمانے میں ریڈیو پاکستان پشاور سے بھی جڑ گئے تھے اور سپورٹس پروگرام میں باقاعدہ حصہ لیتے رہے ہیں جس کے اس زمانے میں پروڈیوسر سردار صاحب ہوا کرتے تھے بعد میں ارشاد سواتی اور زبیدہ عصمت کے پروگرامز میں شریک ہوتے رہے‘میں نے انہیں جب ارشاد سواتی اور زبیدہ عصمت کی رحلت کا بتایا تو بہت افسردہ ہوئے‘ پھر انہوں نے بتایا میں نے جس پروڈیوسر کے ساتھ زیادہ کام کیاوہ اس وقت کے بہت ہی مقبول شو ”یونیورسٹی میگزین“ کے جواں سال پروڈیوسر مشتاق شباب تھے‘ میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا ان دنوں پاکستان ٹیلی ویژن پشاور سے ایک بہت عمدہ شو ”درخشاں“ ہوا کرتا تھا مجھے میری والدہ نے کہا کہ درخشاں پروگرام میں تم آؤ تو پھر میں مانوں گی،میں نے مشتاق شباب سے ذکر کیا تو انہوں نے اسی وقت شو کے پروڈیوسر طارق سعید کو فون ملایا اور یوں اگلے ہی ہفتے میں درخشاں شو میں شامل تھا، مجھے بھی درخشاں پروگرام یاد ہے‘ معروف کمپیئر شہناز اسے ہوسٹ کرتی تھیں‘ مجھے الطاف صدیقی سے ریڈیو اور ٹی وی کے احباب کا ذکر سن کر بہت اچھا لگا، انہیں طارق سعید کا انعام یافتہ ڈرامہ پاگل بھی یاد تھا، افراز علی سیّد نے بھی طارق سعید کے معروف ڈرامہ کروبی میں کام کیا ہوا ہے تو گفتگو افراز کے ریڈیو،ٹیلیویژن اور اسٹیج شوز کی طرف چلی گئی‘ بہر حال الطاف صدیقی سے مل کر مجھے یوں بھی خوشی ہوئی کہ بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنے کیرئیر کے آغاز میں ساتھ دینے اور راستے سجھانے والے دوستوں کو یاد رکھتے ہیں اور اتنی محبت سے ان کا ذکر کرتے ہیں‘گفتگو کے دوران پہلے پہل تو پاکستان کی حالیہ فتحیابی پر دیر تک بات ہوئی، بیچ میں تھوڑی بات امریکن سابق صدر جو بائیڈن کی بیماری پر بھی ہوئی انہیں کینسر کی بیماری کا سامنا ہے اور پھر ادب اور مزاحمتی ادب کی طرف گفتگو مڑ گئی، صدارتی ایوارڈز کے حوالے سے بھی ان کے کچھ تحفظات تھے لیکن خوشی کی بات یہ تھی کہ اپنی تمام تر مصرفیات کے باوجود ان کا نہ صرف ادبی ذوق برقرار تھا بلکہ ان کی گفتگو میں ان کا مطالعہ بھی جھلکتا نظر آ رہا تھا خصوصاً محمد سلمان،اسرار الحق اور نور آفریدی گفتگو کو ادب کے اطراف میں رکھنے میں ممدثابت ہوئے گزشتہ شعری نشست میں پروین شاکر کی نظم ”مشترکہ دشمن کی بیٹی“ کا میں نے ذکر کیا تھا تو اگلے ہی دن نور آفریدی نے پروین شاکر کے پہلے مجموعہ کلام خوشبو میں شامل اس نظم کی فوٹو کاپی افراز کو وٹس ایپ کر دی گویا امریکا کی مصروف ترین زندگی کے سارے حوالے اپنی جگہ مگر پاکستانی امریکن کمیونٹی آف کولوراڈو کے ادب سے محبت کرنے والے خوش ذوق دوست مطالعہ اور مل بیٹھنے کے لئے پچیسواں گھنٹہ نکال ہی لیتے ہیں، غالب یا د آ گئے
  گو میں رہا رہین ِ ستم ہائے روز گار 
 لیکن ترے خیا ل سے غافل نہیں رہ