جامعات کی ابتری‘ اسباب کیا ہیں؟۔۔۔۔

یہ امر روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ہمارے ہاں تعلیم ہر دور میں نظر انداز رہی ہے گزشتہ کچھ عرصہ سے تعلیمی ادارے مسائل کے جس دلدل میں پھنس گئے ہیں اسکے عوامل اور وجوہات ایک نہیں بلکہ کئی اور مختلف ہیں اور یہی وجوہات ہماری تعلیم کو آئے روز پیچھے دھکیل رہی ہیں جامعہ پشاور ملک کی قدیم درسگاہوں میں سے ایک ہے جس کے گریجویٹس نہ صرف ملکی سطح پر اجتماعی زندگی کے ہر شعبے میں بلکہ بیرون ملک بھی نمایاں خدمات انجام دے رہے ہیں ایک وقت تھا کہ صوبے کے تقریباً ڈیڑھ سو کے قریب کالجز جامعہ پشاور سے ملحقہ تھے اور ان تمام الحاق شدہ کالجز کے بیچلر اور ماسٹر امتحانات کا اہتمام پشاور یونیورسٹی کے زیر انتظام ہوا کرتا تھا کہنے کا مقصد یہ ہے کہ الحاق اور امتحانات کی کروڑ روپے کی فیسیں پشاور یونیورسٹی کو ملتی رہیں مگر جب سے یہ دائرہ تنگ ہوا اور حکومتوں نے صوبے میں جگہ جگہ ہر ضلع اور تحصیل میں یونیورسٹی کیمپس قائم کرلئے اور یہ سلسلہ بدستور جاری رکھا گیا تو مالی ابتری کی ابتداءیہی سے ہوئی جس میں وقت کیساتھ اضافہ ہوتا رہا بعدازاں ان نئی جامعات میں انتظامی اور تدریسی خدمات کی انجام دہی کی ضرورت بھی کافی حد تک جامعہ پشاور سے پوری کر دی گئی اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے یہاں تک کہ نئی جامعات کیلئے وائس چانسلروں کا انتخاب بھی جامعہ پشاور سے کیا جاتا ہے مثال کے طور پر ڈاکٹر احسان علی جسے اگر بابائے تعلیم کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا ڈاکٹر فضل رحیم مروت اور اب جامعہ کے ڈین سوشل سائنسز اور پرووائس چانسلر ڈاکٹر جوہر علی کو خوشحال خان خٹک یونیورسٹی کرک فیکلٹی آف نیچرل سائنسز پروفیسر ڈاکٹر بشیر احمد کو باچا خان یونیورسٹی چارسدہ پروفیسر ڈاکٹر محمد جہانزیب خان کو فاٹا یونیورسٹی اخوروال درہ آدم خیل اور پروفیسر ڈاکٹر ناصر جمال خٹک کو یونیورسٹی آف صوابی تعینات ہونے سے یونیورسٹی میں تین فیکلٹیز ایک بار پھر خالی رہ گئی ہیں ان میں اگرچہ ڈاکٹر ناصر جمال خٹک کی تقرری نامعلوم وجوہات کی بناءپر تاحال رکی ہوئی ہے تاہم میڈیا کے مطابق خیبرپختونخوا کابینہ نے ان کے نام منظوری دیدی ہے ان میں ڈاکٹر جوہر علی ‘ڈاکٹر محمد جہانزیب خان اور ڈاکٹر ناصر جمال خٹک نے اس سے قبل بھی بالترتیب ملاکنڈ یونیورسٹی ‘سوات یونیورسٹی اور کوہاٹ یونیورسٹی میں بطور وائس چانسلر خدمات انجام د ے چکے ہیں جبکہ جامعہ پشاور کے سابق وائس چانسلر پروفیسرز ڈاکٹر ایم رسول جان اورڈاکٹر سید ہ فرحانہ جہانگیر یہ فریضہ انجام دے چکے ہیں اس طرح جامعہ کے شعبہ علوم ماحولیات کی پروفیسر ڈاکٹر نور جہان عرصہ چار سال صوابی یونیورسٹی کی وائس چانسلر رہیں اس تذکرے سے عرض و عایت یہ ہے کہ جامعہ پشاور اپنی ساخت‘ عمر اور خدمات کے حوالے سے ملک کی اہم جامعات میں سرفہرست رہی مگر گزشتہ چند سال سے ریاست کی عدم توجہی بالخصوص جامعات صوبوں کے حوالے ہونے اور تعلیمی بجٹ میں حیران کن کٹوتی جامعہ کی موجودہ ابتر مالی حالت کی وجہ بنی ایک اور وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ جس وقت صوبے کے تمام کالجز کا الحاق جامعہ پشاور کیساتھ تھا اور تقریباً ایک لاکھ کے قریب بیچلر طلباءکے امتحانات کی ذمہ داری پشاور یونیورسٹی کے ذمے تھی تو ذرا جانچنا اور پرکھنا چاہئے کہ اس وقت یونیورسٹی کے تدریسی اور نان تدریسی عملے کی تعداد کتنی تھی؟ اور اب جبکہ یونیورسٹی اپنے وجود کے اندر محض روڈ نمبر2تک محدود ہو کر رہ گئی ہے اب کتنی ہے؟ میرے نزدیک تو اس وجہ کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتاکہ غالباً یہاں پر تیل گیس‘ ٹیلی فون اور گاڑیوں کے استعمال کاکبھی کوئی حساب کتاب یا احتساب نہیں ہوا گاڑیوں‘ فون اور ائرکنڈیشنر کا غیر قانونی استعمال تو یہاںپر ایک روایت بن چکی ہے ان مختلف بے اعتدالیوں کے نتیجے میں مالی ابتری کی جو مشکل جامعہ کے گلے پڑ گئی تھی اس میں رہی سہی کسر کورونا وباءنے پوری کردی گزشتہ سال مارچ کے وسط سے تاحال چوتھی مرتبہ جامعہ کو بند کرنا پڑا اور اس دوران یونیورسٹی کے ذرائع آمدن مفلوج ہو کر رہ گئے مگر حکومت کی طرف سے کوئی ریلیف پیکیج نہیں آیا حالانکہ دنیا کے تمام متاثرہ ممالک نے تعلیم کو بچانے کیلئے کورونا ریلیف پیکیچز فراہم کر دیئے ہیں اسکے ساتھ ساتھ سب سے بڑی اور بنیادی وجہ یہ ہے کہ تعلیمی بجٹ میں موجودہ کمر توڑ مہنگائی اور جامعات کے اخراجات میں کئی گنا اضافے کے باوجود اضافے کی بجائے کمی کردی گئی حکومت وقت اگر اصلاح احوال کے ذریعے تعمیری تبدیلی لانے میں سنجیدہ ہو تو سب سے پہلے تو تعلیمی بجٹ میں ناگزیر اضافہ اور جامعات میں غیر ضروری بلکہ غیر قانونی اخراجات کو روکنا ہوگا جبکہ دوسرے قدم میں جامعات میں ہونیوالے اخراجات کا باقاعدہ حساب کتاب اور کڑا احتساب لازمی امر ہوگا ساتھ ہی سیاسی وابستگی اور مفادات کی بنیاد پر ہونیوالی سیاسی دخل اندازی کا خاتمہ بھی لازمی امر ہوگا۔