امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے نائن الیون حملوں کی بیسویں سالنامہ (گیارہ ستمبر) تک افغانستان سے مکمل فوجی انخلأ کا عندیہ دیا ہے تاہم افغانستان حقیقی قیادت سے محروم ایک ایسا ’سیاسی خلأ‘ رکھتا ہے جس کی موجودگی میں غیرملکی افواج کے انخلأ سے خاطرخواہ نتائج برآمد ہونے کی اُمید کم ہے نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور واشنگٹن میں امریکہ کے فوجی ہیڈکوارٹر پینٹاگون پر سال دوہزارایک‘ ری پبلکن صدر بش جونیئر کے دور میں خودکش فضائی حملے ہوئے تھے جن میں تین ہزار سے زائد امریکی مارے گئے جبکہ ان حملوں سے امریکہ کی داخلی حفاظت (ہوم لینڈ سکیورٹی) کا بھی سوال اٹھا۔ بش انتظامیہ نے ان حملوں کا ملبہ اسامہ بن لادن کی تنظیم القاعدہ پر ڈالا اور مسلم دنیا کیخلاف اعلانیہ کروسیڈ کا آغاز کر دیا۔ اسامہ بن لادن کے افغانستان میں ہونے کے باعث امریکہ نے نیٹو فورسز کی معاونت سے افغانستان کو میدان جنگ بنا دیا۔ امریکی نیٹو فورسز نے اس جنگ میں افغانستان پر مہلک ہتھیار انتہائی بے رحمی سے استعمال کئے اور طالبان حکومت کو گرا کر وہاں کرزئی کی کٹھ پتلی حکومت قائم کر دی جنہوں نے بھارت کی گود میں بیٹھ کر پاکستان کی سلامتی کے خلاف بھی سازشوں کا سلسلہ شروع کیا جبکہ اس جنگ میں فرنٹ لائن اتحادی کے کردار کے ردعمل میں پاکستان بھی براہ راست لپیٹ میں آگیا۔ طالبان نے پاکستان کی سرزمین پر خودکش حملوں اور دہشت گردی کی دوسری وارداتوں کا سلسلہ شروع کیا جبکہ امریکہ نے پاکستان کے مخلصانہ کردار پر بھی بدگمانی کا اظہار کرتے ہوئے ”ڈو مور“ کے تقاضوں کا آغاز کیا اور ساتھ ہی پاکستان کی سرزمین پر ڈرون حملوں کا سلسلہ بھی شروع کردیا جس سے پاکستان کی داخلی سلامتی متاثر ہوئی جبکہ امریکہ سے برسر پیکار طالبان نے خودکش حملوں اور دہشت گردی کی دیگر وارداتوں میں عام لوگوں کے علاوہ سکیورٹی فورسز کے افسروں‘ اہلکاروں اور حساس تنصیبات کو نشانہ بنانا شروع کیا‘ نتیجتاً پاکستان کے ستر ہزار سے زائد شہری بشمول سکیورٹی فورسز کے دس ہزار سے زائد اہلکار شہید ہوئے جبکہ زخمی ہو کر مستقل معذوری کی زندگی بسر کرنے والے پاکستانیوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کی معیشت کو بھی 2 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوا اور ملکی سلامتی الگ داؤ پر لگ گئی!چار لاکھ کے قریب نیٹو فورسز کے ساتھ افغان جنگ دوہزاربارہ تک گھمسان کی جنگ کی صورت میں جاری رہی جس کے دوران پاکستان بدترین دہشت گردی کی لپیٹ میں رہا۔ بالآخر نیٹو سربراہی کانفرنس میں نیٹو فورسز کو افغانستان سے مرحلہ وار نکالنے کا فیصلہ ہوا۔ نیٹو کے دیگر ممالک نے تو دوہزارپندرہ تک اپنی افواج افغانستان سے نکال لیں مگر امریکہ نے کرزئی کے ساتھ معاہدے کے تحت مجموعی ایک لاکھ میں سے اپنے بیس ہزار فوجی افغانستان میں ہی موجود رکھے۔ اس طرح پاکستان کا فرنٹ لائن اتحادی کا کردار بھی برقرار رہا جس کا خمیازہ ہمیں سترہ دسمبر دوہزارچودہ کو آرمی پبلک سکول پشاور پر خودکش دہشت گرد حملے کی صورت میں بھگتنا پڑا جس میں ڈیڑھ سو سے زائد معصوم بچے اور اساتذہ شہید ہوئے۔ اس سانحہ کے بعد قومی سیاسی اور عسکری قیادتوں نے یکسو ہو کر وطن عزیز کو دہشت گردی سے پاک کرنے کا عزم کیا اور نیشنل ایکشن پلان تشکیل دیکر دہشت گردوں کے خلاف کاروائیوں کا سلسلہ شروع کیا۔ اس سے دہشت گردوں کی کمر ٹوٹی اور امن کی بحالی کے امکانات روشن ہوئے مگر پاکستان کی سلامتی کے درپے بھارت نے افغان سرزمین کے راستے پاکستان کے اندر دہشت گردی کا نیٹ ورک قائم کیا جس کی کاروائیاں ہنوز جاری ہیں الغرض افغان جنگ کا براہ راست اور بالواسطہ سب سے زیادہ نقصان پاکستان ہی کو اٹھانا پڑا۔ فی الوقت جوبائیڈن امریکی قوم کو امن کا تحفہ دینا چاہتے ہیں۔ اس تناظر میں افغانستان میں قیام امن کیلئے چوبیس اپریل ترکی میں ہونے والی امن کانفرنس کے نتیجہ خیز ہونے کی توقع کی جارہی ہے۔ یہ کانفرنس رواں ماہ (چوبیس اپریل سے) سے چار مئی تک جاری رہے گی جس پر اقوام متحدہ نے بھی تکیہ کر رکھا ہے اور اسکی جانب سے خودمختار اور متحد افغانستان کے قیام کا عزم ظاہر کیا جارہا ہے۔