کورونا کی تیسری لہر اور قوم کیلئے تنبیہ 

 کورونا وائرس کی تیسری لہر اتنی تیزی سے بڑھ رہی ہے کہ ملک بھر میں اس کے پھیلنے کی شرح اوسطاً گیارہ فیصد سے بھی زیادہ گئی ہے۔ بڑھنے کی اوسط شرح تو اپنی جگہ اس کی شدت اس قدر زیادہ ہے کہ اموات کی شرح میں بھی کافی اضافہ ہو گیا ہے۔ حکومت اور دوسرے نجی ادارے بار بار عوام کو ”ایس او پیز“ کی پابندی کی تلقین کرتے رہتے ہیں۔ مگر عوام ہیں کہ ا ن کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ حکومت نے تنبیہ کی ہے کہ اگر کورونا کا زور کم نہیں ہوا تو مجبوراً چند بڑے بڑے شہروں کو بند کر دیا جائے گا، جس سے تکلیف عوام کو ہی اٹھانی پڑیگی۔ پچھلے دنوں بے احتیاطی کی وجہ سے کوروناپھیلاؤ کی شرح بعض شہروں میں 29 سے 51 فیصد تک پہنچ گئی تھی، جو بہت ہی خطرناک شرح ہے۔ صوابی، مردان اور چارسدہ میں پھیلاؤ کی شرح بہت زیادہ ہے۔ پاکستان میں کورونا پھیلاؤ کی شرح اس قدر زیادہ ہے کہ برطانیہ نے 9 اپریل سے اپنے ملک میں پاکستانیوں کا داخلہ بند کر دیا ہے اور پاکستان کو ریڈ لِسٹ میں شامل کر دیا ہے اور اسی طرح کینیڈا نے بھی پاکستان کے ساتھ فضائی رابطہ معطل کر دیا ہے۔ حالات کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے سعودی عرب نے بھی پاکستان کے ساتھ فضائی رابطے معطل کر دئیے ہیں۔انڈیا میں یہ شرح پاکستان سے کہیں زیادہ ہے۔ جہاں پچھلے کئی دنوں سے کورونا بڑھنے کی شرح ساڑھے تین لاکھ کیسز روزانہ سے زائد ہوگئی ہے۔کورونا پھیلاؤ نے دنیا کے دوسرے ممالک کی طرح پاکستان کی معیشت کو بھی بری طرح متاثر کر رکھا ہے۔ اس موضوع پر بہت کچھ لکھا گیا اور تمام ٹی وی چینلز اور اخبارات میں روزانہ اس حوالے سے خوفناک خبریں سامنے آرہی ہیں۔ ہر آنے والے دن متاثر اور ہلاک ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ ہونے کی رپورٹس آرہی ہیں۔ عوام اپنی آنکھوں سے ان ہلاکتوں کو دیکھ رہے ہیں، جو ان کے علاقوں اور محلوں میں واقع ہو رہی ہیں۔ ایسے بھی کیسز رپورٹ ہو رہے ہیں کہ ویکسین کی پہلی ڈوز لگنے کے باوجود بعض افراد اس موذی مرض سے متاثر ہوئے اور جاں بحق بھی ہوئے۔ ابھی چند روز پہلے چیف کمشنر لینڈ ریونیو ڈاکٹر شمس الہادی جس نے ویکسین کی پہلی خوراک لی تھی اور دوسری میں دو چار روز باقی تھے وہ بمعہ اپنے بیوی بچوں کے اسلام آباد میں شادی کی ایک تقریب میں شریک ہوئے تو وہ اور اس کا تمام اہلخانہ اس وباء کا شکار ہوئے۔ بیوی بچے تو صحتیاب ہو گئے مگر وہ خود زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔میں کوئی عالم یا مفتی نہیں ہوں مگر جان بوجھ کر اس وباء کے دوران احتیاط نہ کرنا اور ایس او پیز کی پابندی نہ کرنا خودکشی کے مترادف ہوسکتا ہے۔ اگر عوام کا رویہ غیر سنجیدہ رہا تو حکومت کو چاہئے کہ ایس او پیز پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کیلئے انتہائی سخت اقدامات اٹھائے اور جو شخص خلاف ورزی کرے گا اس کیلئے قید اور جرمانے کی مثالی سزا مقرر کرے تاکہ دوسرے اس سے سبق حاصل کریں۔ہمارے صوبے میں وباء کے تیزی سے پھیلاؤ سے ایک طرف بیروزگاری بڑھ رہی ہے تو دوسری طرف صوبے کے تمام ہسپتالوں پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔ صرف پشاور کے تین بڑے ہسپتالوں میں کورونا مریضوں کیلئے مختص بسترے 87 فیصد سے زیادہ بھر گئے ہیں۔ جو بہت بڑی تعداد ہے۔ اسی طرح آکسیجن کی کمی بھی واقع ہو رہی ہے۔ اگر خدا نخواستہ مریضوں کے بڑھنے کی تعداد کی شرح اس رفتار سے جاری رہی تو وہ وقت دور نہیں کہ ہسپتالوں میں جگہ ملنا محال ہو جائے گا۔ یہی حال ہسپتالوں میں موجود وینٹی لیٹرز کا ہے، جن کی تعداد پہلے سے ہی کم ہے۔23 اپریل کو وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت این سی او سی کا اجلاس ہوا، جس میں ملک میں تیزی سے پھیلتی ہوئی کورونا وباء پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔ اس لئے فیصلہ کیا گیا کہ ایس او پیز پر سختی سے عملدرآمد کرانے کیلئے فوج کو بلایا جائے۔ وزیراعظم نے متنبہ کیا کہ اگر ایس او پیز پر سختی سے عملدرآمد نہیں کیا گیا تو حکومت کو مجبوراً ملک کے بڑے بڑے شہروں میں لاک ڈاؤن کرنا پڑے گا۔ عوام کی غیر سنجیدگی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ پولیس کی مدد کیلئے فوج کو بلانا پڑا ہے۔کورونا سے ایک طرف معاشی بدحالی پیدا ہو رہی ہے تو دوسری طرف بچوں کی تعلیم بری طرح متاثر ہو رہی ہے اور یہ سلسلہ گزشتہ ایک سال سے زیادہ عرصے سے جاری ہے۔ چھوٹے بچے گھروں پر آن لائن کلاسوں میں غیر سنجیدہ ہوتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان کی تعلیم بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ ان حالات کے پیش نظر عوام کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔