اور یہ بھی قابل فخر ہیں 

 آج سے کوئی چار پانچ ہفتے پہلے  شریف شکیب صاحب کا کالم بعنوان”قوم کی قابل فخر بیٹیاں“ پڑھ کر خوشی اس بات کی ہوئی کہ بعض بہت ہی ذہین اور قابل فخر قوم کے بیٹوں اور بیٹیوں کے بارے میں اچھے خاصے لوگوں کو علم نہیں ہوتا اور اس پر مستزاد یہ کہ حکومتی حکام بھی انکی ذہانت اور قابلیت سے فائدہ نہیں اٹھاتے اور یوں وہ ملک کے دور اُفتادہ کونوں کھدروں میں زندگی بسر کر لیتے ہیں۔ بہت کم ان میں ایسے ہوتے ہیں جو زندگی کے تیزی سے بدلتے ہوئے دھارے میں شامل ہو جاتے ہیں۔ انکے مقابلے میں وہ افراد جنکی صلاحیت ان لوگوں کے مقابلے میں کئی گنا کم ہوتی ہے بعض وجوہات کی بناء پر مختلف شعبوں کے اُفق پر نمایاں نظر آتے ہیں۔ شریف شکیب صاحب نے بین الاقوامی سطح پر اپنا لوہا منوانے والی دو خواتین ڈاکٹروں‘ ڈاکٹر عظمیٰ زیدی اور ڈاکٹر زبیدہ کا ذکر کیا ہے۔ ڈاکٹر زبیدہ کا انہوں نے بطورِ خاص اور تفصیل سے ذکر کیا ہے اور ان کے کارناموں کو اُجاگر کیا ہے۔ انہوں نے ان کے والد جناب شیر ولی اسیر صاحب کے بارے میں لکھا ہے کہ انہیں استاد الاساتذہ کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ہم اس میں اضافہ کرتے ہوئے اس ملک کی تاریخ میں ایک ایسی خاتون ڈاکٹر کا ذکر کرنا مناسب سمجھتے ہیں جو پہلی مرتبہ فوج کے میڈیکل کور میں اعلیٰ ترین عہدے تک ترقی کرچکی ہیں اور وہ ہیں لیفٹیننٹ جنرل ڈاکٹر نگار جوہر‘جن کا تعلق ضلع صوابی کے ایک پسماندہ گاؤں پنج پیر سے ہے۔ سرجن جنرل کے عہدے پر پہنچنے والی اس قابل قدر خاتون کے نانا مولانا محمد طاہر صاحب برصغیر پاک و ہند کے بہت بڑے عالم دین تھے۔ مگر ان کی بدقسمتی یہ تھی کہ وہ برصغیر کے ایک ایسے خطے میں پیدا ہوئے جہاں کے عوام نے انگریز سامراج کو نکالنے کی بھرپور جدوجہد کی جس میں وہ خود بھی شامل رہے۔ ورنہ علمیت کے حوالے سے اگر برصغیر کے دَس(10) جید علماء کو گنا جائے تو ان میں مولانا محمد طاہر کا نام بھی ہو گا۔ بہرحال علم کے اس گہرے سمندر کے بارے میں ایک الگ کالم میں ذکر کریں گے۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر ایک طرف ڈاکٹر زبیدہ کے والد استاد الاساتذہ ہیں تو دوسری طرف جنرل نگار جوہر کا گھرانہ بھی علم کے اُفق پر نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ جنرل ڈاکٹر نگار جوہر اپنے والد کرنل عبدالقادر سے بھی بہت متاثر رہی ہیں، باوجود اس حقیقت کے کہ بچپن ہی میں انکے والدین کار کے ایک حادثے میں وفات پا گئے تھے۔مگر انہوں نے ہمت نہ ہاری اور آرمی میڈیکل کور میں اپنا لوہا منوانے نکلی۔ ورنہ تو بچپن میں والدین کا سایہ سر سے اٹھنے پر بچے اپنے مقاصد میں کم ہی کامیاب ہوتے ہیں۔ مگر جنرل نگار جوہر کی مثبت سوچ اور قوم کی خدمت کی اُمنگ نے انہیں اس مقام تک پہنچایا۔ارفع کریم پر بھی قوم کو فخر ہے جنہوں نے دنیا کی کم عمر ترین مائیکروسافٹ سرٹیفائیڈ پروفیشنل ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ 14 جنوری 2004ء کو اپنا لوہا منواتے وقت انکی عمر صرف نو(9) سال تھی اور دس سال کی عمر میں پائیلٹ کا اجازت نامہ بھی حاصل کیا۔ انکا نام گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل کیا گیا۔ مائیکروسافٹ کے بانی بل گیٹس نے انہیں امریکہ بلا کر اعزاز سے نوازا۔ 20 فروری 1995ء کو فیصل آباد میں پیدا ہوئی مگر ابتدائی تعلیم لاہور میں حاصل کی۔ 16 سال کی عمر میں 14 جنوری 2012ء کو وفات پا گئی۔ وجہ عارضہ قلب بیان کی گئی جو ابھی تک معمہ بنی ہوئی ہے۔آئیے اب دیکھتے ہیں ان چند مسلمان سائنسدانوں کی زندگی کا احوال جنہوں نے سائنس کی دنیا میں تو نمایاں کارنامے سرانجام دیئے مگر ان کی اموات کی وجہ کو ابھی تک دنیا کی نظروں سے خفیہ رکھا گیا ہے۔فزکس کے میدان میں ایک ایسی ہستی گزری ہے جسے ”آئن سٹائن آف عرب“ کہا جاتا ہے، جن کی موت پر خود آئن سٹائن رویا تھا اور کہا تھا کہ وہ ایک ذہین انسان تھا اور میں خود اسکی اٹامک انرجی کے متعلق ریسرچ سے مستفید ہوتا رہا ہوں۔ اس عظیم سائنسدان کا نام ڈاکٹر مصطفیٰ مشرفہ ہے۔ آئن سٹائن کہتا ہے کہ وہ یقیناً فزکس کے بہترین سائنسدان تھے۔ انکا تعلق مصر سے تھا۔ اس نے فزکس اور ریاضی پر 12 کتابیں اور 25 ریسرچ پیپرز لکھے۔ مگر افسوس کہ آج ان کی کتابوں اور ریسرچ پیپرز پر مغربی ممالک کی لائبریریوں میں پابندی لگی ہوئی ہے۔ ا ن کی اچانک موت پر انگلیاں اُٹھائی جا رہی ہیں۔ ایسا ہی حال لبنان کے سائنس دان حسن کامل الصباح کا بھی ہے، جنہوں نے 1930ء میں سولر سیلز کی ابتدائی ایجاد کی۔ جنکی جنرل الیکٹرک کیلئے کی گئی 52 ایجادات میں کچھ تو خلائی پروگراموں تک میں استعمال ہوئیں۔ مگر بدقسمتی سے حسن کامل الصباح کا انجام بھی کچھ اچھا نہ تھا اور ایک پراسرار روڈ حادثے میں مارے گئے۔بیسویں صدی کے عظیم سائنسدانوں کا تذکرہ مسلمان خواتین سے خالی نہیں ہے۔ سعودی عرب سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر سامعہ میمنی نے ایک ایسی ایجاد کی جس سے دماغ کی ایک انتہائی پیچیدہ سرجری کو کیمرے کے ذریعے ممکن بناکر اسکے رسک کو کم سے کم کردیا گیا۔ سامعہ میمنی کا انجام ان تمام سائنس دانوں میں سب سے زیادہ کربناک تھا۔ انکی تشدد زدہ لاش نیویارک کی ایک سڑک کے کنارے فریج میں پائی گئی۔ اپنے ملک کو ناقابل تسخیر بنانے کا عزم رکھنے والے مصری نیوکلیئر سائنس دانوں سمیرا موسیٰ اور یحییٰ المشد بھی سازش کے تحت قتل کئے گئے۔سمیرا موسیٰ کی کینسر کے علاج ریڈیو تھراپی کو سستا بنانے کی ریسرچ اور یحییٰ المشد کا مصر کے بعد عراق کے نیوکلیئر پروگرام کا سربراہ بننا ان دونوں سائنسدانوں کے سب سے بڑے جرائم ٹھہرے۔مسلمانوں کے سائنس کے میدان میں پیچھے رہ جانے کا ذکر آپ نے دانشوروں کی زبانی تو سنا ہو گا، مگر ان باکمال سائنسدانوں کے کارنامے کبھی دنیا کو نہیں بتائے گئے اور نہ ہی انکی پراسرار موت کا تذکرہ کیا گیا۔یہ معلومات چونکہ مسلمانوں کیلئے نئی ہیں اسلئے دوسروں کو بھی آگاہ کرنے کی ضرورت ہے۔ بعض اسلام دشمن سیکولر عناصر یہ پروپیگنڈہ کرتے نہیں تھکتے کہ مسلمان سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی نہ کرکے ترقی یافتہ قوموں کی صف میں کھڑے نہ ہو سکے۔ حالانکہ حقیقت اسکے برعکس ہے۔ مسلمانوں کے خلاف آج پوری دنیا صف آراء ہے۔کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ ان میں ذہانت کیساتھ ساتھ بہادری کا جذبہ بھی موجود ہے اور اگر ان کو موقع مل گیا تو یہ پوری دنیا پر چھا جائیں گے۔