سلیقے کا کام

معروف براڈ کاسٹر آغا ناصر لکھتے ہیں کہ رات کافی بیت گئی تھی جب ٹیکسی ہوٹل ماؤنٹ پلیزنٹ کے سامنے رکی‘ ہوٹل میں استقبالیہ کے نیم خوابیدہ کلرک کو بیدار کیا اس بوڑھے انگریز نے مجھے چیک ان کرایا اور پھر بڑی گرم جوشی سے مصافحہ کرکے رخصت ہو گیا‘ جانے سے پہلے انہوں نے جیب سے ایک سفید رنگ کا لفافہ نکال کر مجھے دیا اور کہا کہ آپ سونے سے پہلے اس میں رکھے ہوئے خط کو پڑھ لیں‘ کیونکہ اس میں صبح کیلئے ضروری ہدایت ہیں۔ میں نے جلدی جلدی وہ لفافہ کھولا اس لفافے میں برٹش کونسل میں میری پروگرام ایڈیٹر‘ مس روز میری کا خط تھا۔ ڈئیر آغا میں آپ کو لندن میں خوشی آمدید کہتی ہوں‘ مجھے افسوس ہے کہ آپ کے جہاز کی پرواز میں پانچ گھنٹے سے زیادہ تاخیر ہوئی جو یقینا آپ کیلئے بے آرامی کا سبب بنی ہو گی‘ آپ کے ٹریننگ سنٹر میں کل صبح نو بجے سے تربیت کا آغاز ہو گا نو بجے ٹریننگ سٹوڈیو میں آپ کاپہنچنا ضروری ہے‘ آپ اپنے ہوٹل سے سوا آٹھ بجے نکلیں تو ٹھیک نو بجے اپنے ٹریننگ سنٹر میں پہنچ جائیں گے‘ لفافے میں آپ کی سہولت کیلئے کچھ کیش رقم بھی رکھ دی گئی ہے تاکہ آپ کل صبح بس اور ریل کے ٹکٹ اور دوپہر کے لنچ کے اخراجات ادا کر سکیں‘میں نے خط سے منسلک ہدایت نامہ پڑھنا شروع کیا‘آٹھ بجے آپ ہوٹل کے دروازے سے باہر نکلیں اور سیدھے ہاتھ مڑ جائیں سڑک پر پانچ منٹ چلنے کے بعد آپ ٹریفک لائٹ کے چوراہے پر پہنچ جائیں گے یہاں سے آپ پھر ایک بار دائیں جانب مڑ جائیں‘ دومنٹ چلنے کے بعد آپ کو اپنے بائیں جانب رسل سکوائر کے انڈر گراؤنڈ سٹیشن کا بورڈ نظر آئے گا آپ سڑک پار کرکے ٹیوٹ سٹیشن میں چلے جائیں اور بیکر سٹریٹ کا ٹکٹ خریدیں‘ ساتھ ہی ٹکٹ فروخت کرنیوالے سے انڈر گراؤنڈ ریلوے کا نقشہ بھی طلب کر لیں جو آپ کیلئے لندن میں قیام کے دوران بڑامددگار ثابت ہو گا رسل سکوائر سے آپ پکا ڈلی سرکس جانیوالی ٹرین میں سوار ہوں‘ پکاڈلی سرکس پر اتر کر بیکر لولائین لیں اور اس کے بعد جب بیکر سٹریٹ پر آپ انڈر گراؤنڈ سٹیشن سے باہر نکلیں تو سڑک پار ٹریفک سگنل کے بالکل قریب آپ کو بس سٹاپ نظر آئے گا۔ یہاں سے آپ بس کے ذریعہ ریجنٹ پارک پر جا کر اتریں سڑک کے دوسری جانب مینس فیلڈ لاج میں ٹیلی ویژن ٹریننگ سینٹر کی عمارت ہے مگر یاد رکھئے بس سٹاپ سے اترتے ہی سڑک پار کرنے کی کوشش نہ کیجئے گا‘ تھوڑا سا آگے جائیں اور سگنل کے پاس زیبراکراسنگ سے سڑک پار کریں یہ بات خاص طور پر اس لئے بتائی جا رہی ہے کہ اس سڑک پر ٹریفک بہت تیز ہوتی ہے۔ادھرپی ٹی وی کے سابق سربراہ آغا ناصر ملکی تاریخ کے ایک اہم موڑ کے واقعات قلمبند کرتے ہوئے لکھتے ہیں‘دو دن اور ایک رات مسلسل ٹیلی ویژن ٹرانسمیشن کے بعد میں دوپہر کو گھر آیا تو بستر پر اس طرح گرا جیسے کوئی نشہ سے مدہوش ہوجاتا ہے۔ ابھی نیند کی پہلی لہر ہی آئی تھی کہ صفیہ نے مجھے جگا دیا اور کہا ”فون آیا ہے، وزیراعظم بھٹو ٹی وی سٹیشن آنیوالے ہیں‘شاید وہ قوم سے خطاب کرنا چاہتے ہیں۔“1977ء کے عام انتخابات میں نو ستاروں والے پرچم کے تلے تک ملک کی ساری حزب اختلاف کی جماعتیں متحد ہوگئی تھیں‘ بھٹو صاحب نے انتخابات تو کرا دئیے مگر ان پارٹیوں نے ان نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھااسی کے جواب میں بھٹو صاحب نے قوم سے خطاب کرنے اور عوام کو اعتماد میں لینے کا فیصلہ کیا تھا۔ میں آنکھیں ملتا ہوا جلدی جلدی ٹی وی سٹیشن آیا تاکہ انتظامات کرلئے جائیں‘ بھٹو صاحب وقت سے ایک ڈیڑھ گھنٹہ بعد آئے‘ سب سے پہلا سوال جو انہوں نے کیا وہ تھا ”مجھے کس طرف جانا ہے“ میں نے انہیں بتایا کہ پی ٹی وی کے نئے کلر سٹوڈیو سے آپ کی تقریر نشر کی جائے گی‘ میں نے محسوس کیا وہ مضطرب سے تھے۔ یہ وہ بھٹو ہرگز نہ تھا جسکی تقریریں میں نے گزشتہ چار پانچ برس ریکارڈ کی تھیں‘ حسب عادت انہوں نے سٹوڈیو میں داخل ہونے کے بعد ماحول کا جائزہ لیا کون شخص کیا ڈیوٹی کررہا ہے اور کل کتنے آدمی سٹوڈیو میں موجود ہونا ضروری ہیں۔