ریلوے حادثات، حل کے متقاضی 

 سات جون 2021 ء کو بہت ہی افسوسناک واقعہ پیش آیا جب پاکستان ریلوے کی 2ٹرینیں آپس میں ٹکرا گئیں اور مالی نقصان کیساتھ ساتھ 55 قیمتی جانیں ضائع ہو گئیں جن میں چار ریلوے ملازمین بھی شامل ہیں اور 150 سے زائد مسافر زخمی بھی ہوئے ہیں، مسافروں پر دہری قیامت ٹوٹ پڑی بوگیاں الٹنے سے بچ جانے والے مسافروں کو دوسری ریل گاڑی نے کچل دیا۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب ملت ایکسپریس کراچی سے سرگودھا کے لئے نکلی اور سرسید ایکسپریس پنجاب سے کراچی جانے کے لئے چلی۔ یہ دونوں ٹرینیں آپس میں سندھ کے ضلع گھوٹکی کے علاقے ڈہرکی سٹیشن پر ٹکرا گئیں۔ میڈیا اطلاعات کے مطابق ملت ایکسپریس کی بوگیاں پٹڑی سے اتر گئی تھیں اور سرسید ایکسپریس اس کی بوگیوں سے ٹکرا گئی اس افسوسناک واقعے پر وزیراعظم عمران خان اور بڑی بڑی سیاسی و سماجی شخصیات نے گہرے دکھ و غم کا اظہار کیا ہے، وزیراعظم نے سوشل میڈیا ایپ ٹویٹر پر اپنا بیان جاری کرتے ہوئے متعلقہ حکام کو جاں بحق افراد کے اہلخانہ کی بھرپور مالی امداد کی ہدایات جاری کرنے کے علاوہ انکوائری کمیشن بنانے کا بھی حکم جاری کیا تاکہ حادثے کی وجوہات کی نشاندہی کرکے اسکا سدباب کیا جا سکے‘وزیراعظم نے کہاکہ ریلوے سیفٹی کی خرابیوں کی مکمل تحقیقات کی جائیں،اب 9جون کو پشاور سے کراچی جاتے ہوئے خیبر میل مسافر ٹرین کی ایک بوگی راستے میں پٹڑی سے اتر گئی تاہم اس میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا‘حسب روایت اس حادثے پر پھر سیاست شروع ہو گئی ہے،بیورو کریسی اور سیاستدان آمنے سامنے آ گئے ہیں اور اس کی ذمہ داری ایک دوسرے کے سر ڈال رہے ہیں۔ڈی ایس ریلوے سکھر طارق لطیف نے بیان دیا ہے کہ ہم اربوں روپے خرچ کرکے بھی ریلوے نظام کو ٹھیک نہیں کر پائے، ریلوے کے نظام کو سنجیدگی سے نہیں دیکھا جارہا اور صرف بیان بازی سے کام نہیں چلے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کی ساری توجہ سی پیک پراجیکٹ ایم ایل ون کی جانب ہے جو ایک اچھی بات ہے۔ وفاقی انسپکٹر برائے ریلوے فرخ تیمور نے طارق لطیف کے اس بیان پر ماضی میں ٹرین حادثے پر پچھلی انکوائری کمیشن رپورٹ دوبارہ جاری کرتے ہوئے کہا کہ ڈی ایس ریلوے کا بیان غیر ذمہ دارانہ ہے‘ انہوں نے کہا کہ ڈی ایس ریلوے ٹرین ڈرائیورز کو ٹرین تیز چلانے پر مجبور کرتا ہے جسکی وجہ سے حادثات رونما ہوتے ہیں۔اسی طرح کچھ عرصہ پہلے بھی ٹرین حادثہ ہوا تھا جسکی وجہ موجودہ حکومت نے تبلیغی جماعت کے افراد کے گیس سلینڈر کے پھٹنے کو قرار دی تھی۔ہمارے ریلوے کا نظام انگریزوں کے زمانے کا بنا ہوا ہے۔ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی اور ہم بچت کی خاطر انگریزوں سے وراثت میں ملے ہوئے اسی پرانے طرز کے ریلوے نظام پر ابھی تک چل رہے ہیں۔حکومت پاکستان نے وقتاً فوقتاً ٹرینوں کو کسی حد تک تو اپ گریڈ کر دیا ہے مگر ریلوے پٹڑیاں اور سگنل سسٹم وہی انگریز دور کے پرانے طرز پر ہیں۔ تبھی تو تیز رفتار ریلوے ایکسپریس پٹڑیوں سے اتر جاتی ہے اور حادثات رونما ہو جاتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ دوسرے سرکاری محکموں کی طرح پاکستان ریلوے بھی خسارے میں ہے جسکی وجہ غلط بھرتیاں، کرپشن اور اقربا ء پروری ہے۔ پچھلے ادوار میں اس محکمے میں بہت ہی زیادہ کرپشن ہوئی ہے۔ ریلوے کی زمینوں کواونے پونے لیز پر دیا گیا ہے۔ اسکے علاوہ ریلوے سٹیشنوں سے ملحقہ ریلوے زمینوں پر لینڈ مافیاز نے بڑی بڑی مارکیٹیں غیر قانونی طور پر بنا رکھی ہیں۔ جسے واگزار کرانے کیلئے ریلوے انتظامیہ کچھ خاص اقدامات نہیں کر رہی۔ریلوے کو ہر سال خسارے میں جانے پر نواز شریف کی پچھلی حکومت میں انکوائری کمیشن(2016ء) بنایا گیا جس میں اب تک کل 80 ارب روپے کے گھپلوں کا انکشاف کیا گیا۔ اس رپورٹ میں وفاقی حکومت سے درخواست کی گئی تھی کہ لوٹی ہوئی یہ قومی دولت ریلوے حکام سے واگزار کرائی جائے۔اس آڈٹ رپورٹ کے مطابق 2015ء کے مالی سال کے دوران 95 ارب 38 کروڑ 36 لاکھ 39 ہزار روپے کے اخراجات کئے گئے جس میں سے 58 ارب 73 کروڑ 14 لاکھ 60 ہزار روپے کی ادائیگیوں کا آڈٹ کیا گیا۔ کمزور مالیاتی نظام کی وجہ سے ریلوے کو پانچ ارب کا نقصان پہنچا جبکہ 21 ارب روپے مالیاتی کرپشن کی نذر ہوگئے۔ اس رپورٹ سے ریلوے حکام کی کامیابیوں کے دعوے عیاں ہوگئے۔ اس رپورٹ کو ریلوے حکام بشمول ریلوے وزیر نے مسترد کر دیا تھا۔ مگر اسکی مثال ایسی ہے جیسے ہمارے ملک میں دودھ مافیا کی جانب سے خالص اور کیمیکل سے پاک دودوھ بیچنے کے دعوے۔ دودھ فروشی کی ہر دوسری دکان پر لکھا ہوتا ہے کہ اصلی اور ملاوٹ سے پاک دودوھ ہم سے لیجئے۔ کچھ دکانوں پر تو یہ بھی لکھا ہوتا ہے کہ ملاوٹ ثابت ہونے پر لاکھوں جرمانہ بطور تاوان ادا کیا جائیگا۔ اس ملک میں جھوٹ کا دھندہ عروج پر پہنچ گیا ہے اور”چور مچائے شور“کے اس دور میں سچ جھوٹ کی پہچان مشکل ہو گئی ہے۔چین کے ساتھ حکومت پاکستان نے سی پیک کا جو معاہدہ کیا ہے اسکے تحت ہمارے ریلوے نظام کو بہتر کرنا اور جدید خطوط پر استوار کرنا ہے۔ مگر ساری ذمہ داری صرف چین کے کھاتے میں ڈالنے سے ریلوے کے مسائل حل نہیں ہونگے کیونکہ اس سے ریلوے کا محکمہ گروی پڑ جائیگا اور اسکا حشر کینیا کے ائیرپورٹ جیسا ہو جانے کا امکان ہے۔ کینیا کے ائیرپورٹ کو چین سے لئے گئے قرضے کے پیسوں پر بنایا گیا ہے جسکا سود اب کینین حکومت ادا نہ کرسکنے کی وجہ سے چینی حکومت وہ ائیرپورٹ اونے پونے خرید لے گی۔ہمارے ملک میں چین جیسا سزا و جزا کا نظام نافذ کرنا ہو گا۔ کچھ برسوں پہلے چین نے اپنے سابقہ وزیر ریلوے کو کرپشن پر حکومت سے نکال کر سزا دی تھی۔ اس وزیر نے بیس سال تک کیمونسٹ پارٹی میں حکومت کی۔ اس دوران بہت ہوشیاری کے ساتھ اس نے مختلف حکومتی پراجیکٹس میں تقریباً دو کروڑ ڈالرز چرائے۔ حکومت چین بہت پہلے سے ہی اسکے خلاف کرپشن کی تحقیقات کررہی تھی۔ جب اسکے خلاف سارے شواہد اور ثبوت مل گئے تو انکے سارے ملکی و غیر ملکی اثاثے منجمد کرکے سزا دی۔پاکستان میں سزا و جزا کا کوئی ٹھوس نظام نہ ہونے پر مجرم دن بہ دن ترقی پاتے ہیں اور ایمان دار لوگ پستے رہتے ہیں۔