انجام کار جی سیون (G-7) ممالک کو چین کی طرف سے سخت جواب آ ہی گیا۔چین نے ان کو تلخ جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ دن لد گئے جب چند ممالک کے گروہ دنیا کی قسمت کا فیصلہ کیا کرتے تھے ہم سمجھتے ہیں کہ کوئی ملک چھوٹا ہو یا بڑا طاقتورہو یا کمزور امیرہو یا غریب سب برابر ہیں۔ عالمی امور پر تمام ممالک کی مشاورت کے بعد فیصلے ہونے چاہئیں۔چین کا یہ بیان اس وقت سامنے آیا جب اگلے روز انگلستان میں جی سیون سربراہ اجلاس میں امریکہ سمیت دیگر عالمی رہنماؤں نے چین کے ون بیلٹ ون روڈ پراجیکٹ کا مقابلہ کرنے کیلئے امریکی منصوبے بلڈ بیک بیٹر ورلڈ پر اتفاق کیا۔جی سیون اجلاس میں چین کے ساتھ روس کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا امریکی صدر نے اس موقع پر امریکی انٹیلی جنس کو حکم دیا کہ وہ اس بات کی تحقیقات کریں کہ کورونا جانور سے پھیلا یا لیبارٹری میں تیار ہوا جی سیون ممالک نے غریب ممالک کو صرف ایک ارب ویکسینز دینے کا اعلان کیا جب کہ ماضی میں 11 ارب ویکسینز دینے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ جی سیون کے اس اجلاس میں چین کو انسانی حقوق کے معاملے پر بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا سنکیانگ اور ہانگ کانگ میں انسانی حقوق پر سوالات اٹھائے گئے۔ روس پر تنقید کرتے ہوئے جی سیون کے رہنماؤں نے ماسکو سے اس کی سرزمین پر کیمیکل ایجنٹس استعمال کرنے کے معاملے پر وضاحت طلب کی۔ ہم نے اپنے ایک پچھلے کالم میں اس بات کا ذکر کیا تھا کہ امریکہ سی پیک کے مقابلے میں بلیو ڈاٹ کام کے نام سے ایک پروجیکٹ بنا رہا ہے اب اس پراجیکٹ کا نام بدل کر بلڈ بیک بیٹر ورلڈ رکھ لیا گیا ہے اور جی سیون کا نام بھی بدل کر ڈی ٹین رکھا جا رہا ہے اور اس میں مزید 3ممالک یعنی جاپان آسٹریلیا اور بھارت کا اضافہ کیا جارہا ہے۔جی سیون کے اجلاس کے شرکاء کی تقاریر پڑھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ اب امریکہ چین کے خلاف کھل کر میدان میں سامنے آگیا ہے اور اس کی کوشش ہے کہ وہ سی پیک کو ناکام کرے امریکا اب چین کے ساتھ ساتھ روس کی بھی بھر پور مخالفت پر تلا ہوا نظر آتا ہے ایسا لگتا ہے جیسے تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے 1950 کے اوائل میں امریکہ نے جب سوویت یونین کے خلاف سرد جنگ کا آغاز کیا تھا تو اس وقت اور آج کے وقت میں زمین آ سمان کا فرق ہے ماضی میں چین عالمی سطح ہر اتنا متحرک نہ تھا کہ جتنا وہ آ ج ہے اس لئے ماضی میں صرف سویت یونین ہی امریکہ کے بھرپور سیاسی حملوں کا ہدف تھا آج صورت حال کافی مختلف ہے امریکہ کو آ ج صرف ایک کمیونسٹ ملک کی دشمنی کا سامنا نہیں ہے بلکہ اس کے مقابلے میں دو نہایت ہی مضبوط سپر پاورز موجود ہیں آج کمیونسٹ دنیا کی قیادت چین کے ہاتھ میں نظر آ رہی ہے اور روس کو بھی اس بات کا ادراک ہو چکا ہے کہ اگر اس نے امریکہ سے اپنی پرانی دشمنی کا بدلہ لینا ہے تو اسے چین کے تعاون کی سخت ضرورت پڑے گی۔ جی سیون ممالک کے مندرجہ بالا فیصلوں پر چین نے جس رد عمل کا اظہار کیا ہے اس پر تیسری دنیا کے ممالک کے عوام کی یقینا حوصلہ افزائی ہوئی ہوگی خصوصا دنیا کے ان لوگوں کی کہ جو غربت کہ لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ امریکہ نے بلڈ بیک بیٹر ورلڈ کا منصوبہ تو بنا دیاہے پر اس ضمن میں کئی سوالات کو بھی جنم دے دیا ہے کہ جن کے جوابات درکارہیں کیا وہ ممالک جو پہلے ہی سے بیلٹ اینڈ روڈ اینی شیے ٹیو کے تحت چین کے ساتھ معاہدے کر چکے ہیں وہ بیک وقت اس چینی منصوبے اور اس نئے امریکی پراجیکٹ سے مستفید ہو سکیں گے یا پھر انہیں اس سے فائدہ اٹھانے کیلئے چین کے بیلٹ اینڈ روڈ اینی شیے ٹیو سے دستبردار ہونا پڑے گا۔ بیلیٹ اینڈ روڈ پراجیکٹ کو تو چینی حکومت مالیاتی لحاظ سے سپورٹ کر رہی ہے۔ اس نئے امریکی پراجیکٹ کی کیا پوزیشن ہو گی کیا اس میں اس کے ممبر ممالک اپنا اپنا حصہ ڈالیں گے یا پھر واشنگٹن کو ہی تن تنہا اس کا مالی بوجھ اٹھانا پڑے گا۔