کینیڈا سوگوار ہے۔۔۔۔

اتوار6 جون کی ایک درد انگیز اور المناک شام تھی جسکی ہواؤں میں چیخ تھی اور جس کی سڑک پر ایسی خون کی ہولی کھیلی گئی جو ایک پاکستانی کینیڈین خاندان کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے کچل کر تاریک رات میں ڈھل گئی۔سلمان افضال‘ مدیحہ افضال‘ یمنی افضال جن کے درمیان میاں بیوی اور یمنی کے والدین کا رشتہ تھا 74سالہ طلعت جو سلمان افضال کی ماں اور اس بدنصیب خاندان کی دادی تھی ایک ٹیچر اور آرٹسٹ تھی ایک واحد بیٹا فیاض افضال 9سال کا یہ ساری خوشحال فیملی واک کرنے اپنے گھر سے نکلی کورونا کی وباء نے لوگوں میں تنہائی اور مایوسی پیدا کردی ہے اور آپس میں ملنے جلنے کی پابندی نے زندگی کو مزید سوگوار بھی کردیا ہے اس دن پابندیاں کچھ نرم تھیں تو سلمان افضال کے خاندان نے اکٹھے واک کرنے کی خَوشی کو منانا چاہا اور وہ ایک اشارے کے چورے پر سڑک پار کرنے کیلئے اکٹھے ہی کھڑے تھے اور پیدل سڑک کراس کرنے کے اشارے کے منتظر تھے کہ ایک نوجوان جو خود بھی صرف 21سال کا تھا لیکن اسکا دماغ اور دل مسلمانوں کی نفرت سے بھرا ہوا تھا اپنی ٹرک نما گاڑی میں بیٹھ کر وہاں سے گزر رہا تھا اور پھر وہ اپنے شہر میں اس خاندان کو برداشت نہیں کر پایا اچانک ہی گاڑی کو موڑا اور سڑک کراس کرنے کیلئے فٹ پاتھ پر کھڑے ہوئے اس معصوم اور فرشتہ صفت خاندان کو اپنے ٹرک کے نیچے روند ڈالا گاڑیاں چلاتے ہوئے کئی لوگوں نے اسکا یہ اقدام دیکھا وہ یہ سب کرکے آرام سے چلا گیا اور ایک مال(مارکیٹ) کی پارکنگ میں اپنی گاڑی کھڑی کردی پولیس فوراً ہی پہنچ گئی تھی صرف یاض افضال کے کوئی بھی زندہ نہ تھا 9سال کے بچے کو فوری طورپر ہسپتال پہنچایا گیا اسکی حالت خطرے سے باہر تھی مجرم کو پارکنگ ایریا سے10منٹ کے اندر پکڑ لیاگیا اس نے بتایا کہ ہاں میں نے یہ سب کیا ہمارے شہر میں مسلمانوں کا کیا کام ہے کہ وہ یہاں آکر رہ رہے ہیں لندن شہر کینیڈا کے صوبے انتاریو کا ایک چھوٹا سا شہر ہے جہاں 90 فیصد صرف گورے لوگ رہتے ہیں کینیڈا نے جب سے امیگریشن متعارف کروائی ہے اور اس امیگریشن سسٹم سے دنیا بھر کے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور امیر ترین اور ہنرمندوں کو بلانا شروع کیا ہے کینیڈا کی اکانومی تو آسمان کی بلندیوں کو چھو رہی ہے اسکے کاروبار اور کارخانے سونا اگل رہے ہیں وہاں کینیڈین شہری اس پالیسی سے سخت ناراض ہیں وہ امیگرنٹ کو اپنے ملک میں ذہنی طور پر قبول نہیں کرتے اور کھلم کھلا حکومت کینیڈا پر تنقید کرتے ہیں اور جہاں موقع ملے امیگرنٹ کے ساتھ متعصب رویہ بھی اختیار کرنے سے نہیں چوکتے‘ اگرچہ قانون اس رویے کو مستردکرتا ہے اور سزا کا مرتکب ٹھہراتا ہے لیکن کینیڈا اپنے گورے شہریوں کے بارے میں خاصا نرم واقع ہوا ہے کینیڈا کی اعلیٰ ترین نوکریاں اور کاروبار اور حکومتی ایوانوں کے عہدے گوروں ہی کیلئے ہیں اسکے باوجود یہ تعصب کبھی بھی ان کے دماغوں سے نہیں نکلتا‘ لندن شہر میں گوروں کا اپنا ایک رہن سہن ہے ان کی پرائیویسی جو انکو سب سے زیادہ پیاری ہوتی ہے ان کو پسند نہیں ہوتا کہ ان کے ہمسائے میں کوئی گوری سکن کے علاوہ رہائش پذیر ہو 21سال کے مجرم نتھیل ویلمن کے دماغ میں اسی قسم کے نفرت کے کیڑے پل رہے تھے اور افضال فیملی کی بدقسمتی کہ وہ نفرتوں کے اس ہائی پارے میں فٹ پاتھ پر کھڑے تھے ایک گھنٹے کے اندر ہی یہ اندوہناک خبر پورے کینیڈا میں آگ کی طرح پھیل گئی مسلمانوں میں غم و غصہ اور اک خوف کی کیفیت طاری ہوگئی اس سے پہلے کینیڈا کے صوبے کیوبک کی ایک مسجد میں عربی مسلمانوں پر فائر کھول کر قتل عام کیا گیا تھا قاتل گورا تھا اور اسکو بہت کم سزا سنائی گئی کینیڈا کے ایک اور شہر ایٹوبیکو میں ایک پاکستانی کو تعصب کی بناء پر قتل کردیاگیا اور سی ساگا شہر میں ایک بیمار اور عمر رسیدہ شہری کی مدد کیلئے آنے والے پولیس افسر نے اپنے پستول سے گولی چلا کر اسکی زندگی کا خاتمہ کر دیا کیونکہ وہ بیمار دماغی طور پر بھی کمزور تھا گھر والوں سے دوائی لینے سے انکار پر کچن سے چھڑی اٹھا کر اپنی معذوروں والی کرسی پر بیٹھا تھا پولیس افسر نے اسکے ہاتھ میں فروٹ کاٹنے والی چھری دیکھ کر آناً فاناً اس پر گولی چلا دی کہ اس چھری سے اسکو خطرہ لاحق ہوگیا پاکستانی کمیونٹی کینیڈا کی خاموش ترین اور امن پسند کمیونٹی ہے اپنے کسی جائز حق کیلئے بھی بولنا پسند نہیں کرتی اور خاموشی کے گھونٹ پی لیتی ہے بلکہ سڑکوں پر بھی احتجاج نہیں کرتی جس طرح افریقن کینیڈین یا انڈین کینیڈین اپنے حقوق کیلئے یا کسی زیادتی پر احتجاج کیلئے منٹ نہیں لگاتے اور سڑکوں پر آجاتے ہیں جب لندن کے اندوہناک واقعے کی خبر پاکستانیوں اور مسلمانوں تک پہنچی تو یہ شاید کینیڈا کی تاریخ میں پہلا قتل عام تھا کہ تمام مسلمان اکٹھے ہوگئے پاکستانیوں میں توصف ماتم بچھ گئی مدیحہ افضال پشاور انجینئرنگ کالج سے گریجویٹ تھی اور ویسٹرن یونیورسٹی سے پوسٹ گریجویٹ کرکے پی ایچ ڈی کر رہی تھی۔ (جاری ہے)