ایک دوست سے اخبار پڑھنے کا پوچھا تو کہنے لگے میں نے گزشتہ کئی سال سے اخبار پڑھنا چھوڑ دیا ہے۔ وجہ پوچھی تو کہنے لگے بلڈ پریشر کا مریض ہوں، جب اخبار پڑھتا ہوں تو آئے دن جرائم کے واقعات سامنے آتے ہیں جن کی وجہ سے طبیعت اور بھی خراب ہو جاتی ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ جرائم کے نت نئے طریقے ایجاد ہوتے رہتے ہیں۔ اس نے شرطیہ کہا کہ گزشتہ ایک سال کے اخبارات میں سے کوئی ایک دن کا اخبار بغیر جرائم کے خبروں کے مجھے لاکر دو، میں پڑھنا شروع کر دوں گا۔ میرے پاس اس کے مدلل اعتراض کا جواب نہیں تھا۔اگر دیکھا جائے تو یہ بات سمجھ میں آنے والی ہے کہ عوام کو لوٹنے اور ان کو حکومت سے بدظن کرنے کے مختلف طریقے سامنے آتے رہتے ہیں۔ پچھلے دنوں ایک خبر چھپی کہ جعلی فنگر پرنٹس اور انگھوٹے بنانے والا گروہ گرفتار ہوا۔ گرفتار گروہ جعلی فنگر پرنٹس کے ذریعے بینامی بینک اکاؤنٹس آپریٹ کرتا رہا اور بھتہ وصولی بھی کرتا رہا۔ یہ تو صرف پکڑنے کے وقت دس مشکوک بینک اکاؤنٹس کا سراغ مل گیا۔ آگے تفتیش کے دوران پتہ نہیں کتنے دوسرے اکاؤنٹس سامنے آئیں گے اور بھتہ کے نام پر کتنے معصوم اور بے گناہ افراد کو لوٹا گیا ہوگا۔ ابتداء میں تو چار افراد سامنے آئے ہیں،بعد میں دوسرے شرکاء جرم کے سامنے آنے کے امکانات موجود ہیں۔ یہ گروہ اغواء رائے تاوان، ایزی پیسہ اور موبی کیش کے ذریعے بھی رقم کی لین دین کرتا رہا ہے۔ ملزمان غیر قانونی طریقے سے حاصل کی گئی زیادہ تر موبائل سم بھتہ وصولی فالو اپ کیلئے استعمال کرتے تھے۔ ابتدائی طور پر گروہ کے قبضے سے 346 ایکٹیو سم اور ربڑ سے بنے 88 جعلی فنگرز برآمد ہوئے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ گروہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے اور اس کے ارکان ایک معروف کمپنی کے عہدیدار ہیں۔ گروہ نے جائیداد کے جعلی انتقالات اور دیگر سرکاری کاغذات بنانے کا اعتراف بھی کیا ہے۔معلوم نہیں کتنے بیچارے لوگ ایسے گروہوں کے ہتھے چڑھے ہوں گے۔ بعض تو ایسے افراد ہیں جو خوف یا اپنی عزت بچانے کی خاطر خاموش ہوں گے۔ ماضی میں بینظیر انکم سپورٹ پروگرام اور زکوٰۃ جیسے پروگراموں میں بھی کرپشن ہوتی رہی ہے۔ یہاں تک کہ مجبور زکوٰۃ کے مستحق افراد سے کمیشن لینے کے واقعات رونما ہوتے رہے ہیں۔ ایسے سنگ دل افراد کو نہ تو مخلوق خدا کا ڈر ہے، نہ قانون کا اور نہ ہی انہیں اللہ تعالیٰ کا خوف ہے۔پی ٹی آئی کی حکومت نے معاشرے کے پسے ہوئے طبقات کو سہارا دینے کیلئے ”احساس پروگرام“ اس غرض سے شروع کیا ہے کہ ان طبقات کی مدد کی جائے۔ اس قسم کے پروگراموں کا مقصد معاشرہ میں غیر متوازن مالی حالت میں بہتری لانا ہے۔ مگر وہاں بھی صورت حال یہ ہے کہ اس پروگرام کے تحت بعض گروہوں کی شکل میں معاشرے کے ناسور، مردہ افراد کے ناموں سے رقم جاری کرکے اپنی جیبوں میں ڈالتے رہتے ہیں۔ انہیں اچھی طرح پتہ ہوتا ہے کہ جو مال میں اپنے بچوں کو کھلا رہا ہوں وہ حرام ہے۔ مگر ایسے افراد کے دل ایسے سخت ہو چکے ہوتے ہیں کہ ان میں حرام و حلال کی تمیز ختم ہو چکی ہوتی ہے۔ ابھی پچھلے دنوں ایف آئی اے نے کاروائی کرکے اس قسم کے ایک گروہ کے سات افراد کو ضلع تور غر سے بمعہ اس کے ماسٹر مائنڈ گرفتار کیا ہے۔ اس کیس میں تحقیقات ابتدائی مراحل میں ہیں اور ممکن ہے کہ ان کے پیچھے دوسرے افراد بھی ہوں۔ اس گروہ نے کتنی خورد برد کی ہے اس کا اندازہ تحقیقات مکمل ہونے کے بعد ہو گا۔ اس گروہ کا مکروہ دھندہ صرف تور غر تک محدود نہیں تھا بلکہ اس کے تانے بانے کوہاٹ اور ایبٹ آباد سے بھی ملے ہیں۔سرکاری فنڈز میں خورد برد کے واقعات تو روزانہ اخبار کی زینت بنتے رہتے ہیں۔ حال ہی میں اینٹی کرپشن کے محکمہ نے سرکاری فنڈز میں مبینہ طور پر خورد برد کے کیسز میں تحقیقات کے لئے 22 افسران اور اہلکاروں کو طلب کیا ہے۔ ان میں مختلف محکموں کے افراد شامل ہیں۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ حکومت کیلئے یہ بات بہت مشکل ہے کہ بدعنوانی سے مکمل طور پر پاک معاشرہ قائم کرے کیونکہ اس کیلئے مطلوبہ میکینزم موجود نہیں۔ جرائم کے نت نئے طریقے اس قدر خطرناک ہیں کہ انسانوں کی زندگیاں بھی محفوظ نہیں رہیں۔ دودھ میں پانی کی ملاوٹ اگرچہ ناجائز ہے مگر کیمیکل سے دودھ بنا کر بیچنا انتہائی بڑا ظلم ہے۔ یہی دودھ بچوں کی نشوونما اور ان کی ذہنی صلاحیتوں کو کمزور کر دیتاہے اور اس طرح ایک کمزور و بیمار معاشرہ پروان چڑھتا ہے۔ ایک خبر کے مطابق گزشتہ دنوں پشاور شہر میں پنجاب سے مردہ مرغیاں سپلائی کرنے والا منظم گروہ پکڑا گیا۔ اس مکروہ دھندے میں شامل افراد یہ مردہ مرغیاں مقامی ہوٹلوں اور شوارما کی دکانوں کو سپلائی کرتے ہیں۔ فوڈ اتھارٹی نے چارسدہ روڈ پر ایک دکان پر چھاپہ مار کر 750 مردہ مرغیاں برآمد کر لیں۔ دکان کو تو سیل کر دیا گیا مگر ایک عرصہ دراز سے یہ مکروہ دھندہ جاری ہے۔ ماضی میں ٹرکوں کے حساب سے مردہ مرغیوں کا دھندہ کرنے والوں کو پکڑا جا چکا ہے۔ کتنی حیرت کی بات ہے کہ خبریں تو چھپ جاتی ہیں اور ملوث افراد کو پکڑا جاتا ہے مگر ان کے انجام کا کسی کو پتہ نہیں چلتا۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ان جرائم پیشہ افراد کے انجام کو بھی نمایاں طور پر شائع کیا جائے تاکہ دوسرے ان سے عبرت حاصل کر سکیں۔یہ بات البتہ حوصلہ افزا ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے واضح کیا ہے کہ قانون کی خلاف ورزی کرنے پر مجھے بھی نہ چھوڑا جائے۔ پولیس فورس کیلئے یہ بات مشعل راہ ہونی چاہئے نہ کہ اسے ایک خبر کے طور پر پڑھ کر نظر انداز کیا جائے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر بھی کڑی نگرانی کی ضرورت ہے۔