پشاور کہانی: اُمید کا گھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

توجہ طلب ہے کہ پشاور کے ہر بازار اور چھوٹی بڑی شاہراہوں پر مستقل و غیرمستقل تجاوزات کی بھرمار خبر (کوئی نئی بات) نہیں رہی کہ جیسے ’پشاور کو تجاوزات‘ اور ’تجاوزات کو پشاور‘ سے ایسی مثالی گہری دوستی ہو گئی ہو جسے اَنگریزی زبان میں mutally exclusive کہا جاتا ہے یعنی ایسا تعلق کہ جس میں کوئی ایک دوسرے کے بغیر اپنا وجود برقرار نہ رکھ سکے! ایک ایسا شہر جہاں تجاوزات کو نہ تو جرم اور نہ ہی عیب سمجھا جاتا ہو وہاں تہواروں کے مواقعوں پر ’کاروباری مفادات‘ کیلئے ’خصوصی تجاوزات‘ قائم ہوتی ہیں جیسا کہ عیدالاضحی کے موقع پر سڑک کنارے مال مویشیوں کے خریداروں‘ تاجروں اور چارہ فروخت کرنے والوں کی گہماگہمی رہتی ہے۔ ماضی میں پشاور میں سالانہ میلے ہوا کرتے تھے‘ آج سالانہ تجاوزات یہاں کے معمولات کا حصہ بن گئی ہیں۔ جی ٹی روڈ پر ’نشترآباد‘ سے شروع ہونے ’سٹی سرکلر روڈ‘ پر لاہوری سے گنج گیٹ قریب ایک کلومیٹر میں پھیلی تجاوزاتی سرگرمی چھوٹے پیمانے پر سارا سال ہی جاری رہتی ہے لیکن عیدالاضحی کے موقع پر بالخصوص قربانی کیلئے چاقو‘ چھڑیاں‘ ٹوکے‘ کوئلہ‘ آہنی سلاخیں کہ جن کا استعمال گوشت پکانے کیلئے کیا جاتا ہے‘ اندرون شہر ’ریتی بازار (گھنٹہ گھر)‘ کے بعد اِسی مقام پر سب سے زیادہ دکانیں قائم ہوتی ہیں۔ چاقو‘ چھڑیاں تیز کرنے والوں کا روایتی مرکز ’بٹیربازاں (مسگراں و قصہ خوانی بازار سے متصل) ہوا کرتا تھا جہاں اب بھی چند ایک دکانیں باقی ہیں۔ یہ مرحلہئ فکر قارئین کی توجہ اِس جانب بھی مرکوز کرنا ہے کہ ایک وقت میں پشاور کی دکانیں چھوٹی اور کاروبار بڑے ہوتے تھے لیکن آج دکانیں بڑی‘ اور دکانوں کی تعداد بڑھنے کے سبب کاروبار چھوٹے ہو گئے ہیں۔ بہرحال پشاور کہانی میں جنوب مشرق ایشیا کے قدیم ترین زندہ تاریخی شہر کے معاشی پہلو ایک الگ موضوع ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ ’چوک یادگار‘ اور اِس کے اطراف بازاروں میں ٹریفک دباؤ کی وجہ سے شمالی‘ جنوبی اور مشرقی پشاور میں رہنے والوں کی اکثریت لاہوری تا گنج گیٹ لگنے والی ’عید الاضحی بازار‘ کا رخ کرتے ہیں‘ جہاں مٹی کے برتنوں کی دکانیں جو پہلے چند ایک ہوتی تھیں لیکن اب اِن کی تعداد پہلے سے زیادہ ہے اور اِسی طرح لوہار یا لوہا کا سازوسامان فروخت کرنے والوں کی چند ایک دکانیں بھی تعداد میں درجنوں کو عبور کر گئی ہیں اور آہنی چادروں کے کئی ایک گودام تو اتنے بڑے ہیں کہ تھوک (زیادہ مقدار میں خریداری) کرنے والے اِسی بازار کا رخ کرتے ہیں جو اپنی ذات میں ایک عجوبہ ہے۔تاریخی لحاظ سے پشاور کی خصوصیت اور مزاج رہا ہے کہ یہاں کسی ایک پیشے سے تعلق رکھنے والے کسی ایک جگہ اپنا مرکز بنا لیتے ہیں جیسا کہ ڈبگری‘ ریتی‘ ضرب صرافہ اور مسگراں بازار وغیرہ لیکن گنجان آباد ’نئے پشاور‘ میں کسی بھی ضرورت کے ایک سے زیادہ بلکہ درجنوں کی تعداد میں مراکز دکھائی دیتے ہیں۔ جیسا کہ دالہ زاک روڈ پر چپل مارکیٹ ایک ایسا اضافہ ہے‘ جو دیکھتے ہی دیکھتے قائم ہوا ہے اور یہ تیزی سے پھیل رہا ہے۔ ماضی میں جہانگیر پورہ یا نمک منڈی سے رجوع کرنے والے اب اندرون شہر ٹریفک کے دباؤ سے بچنے کیلئے دالہ زاک روڈ کا رخ کرتے ہیں جس کے رنگ روڈ سے متصل ہونے کی وجہ سے آمدورفت نسبتاً آسان رہتی ہے۔ پشاور کے فیصلہ سازوں کو توجہ کرنا ہوگی کہ کس طرح نئے بازار اور تجارتی مراکز قائم ہو رہے ہیں اور اندرون شہر کی منڈیوں کی شاخیں اگر بیرون شہر پھیل رہی ہیں تو وقت ہے کہ اِس عمل کو اِس انداز میں منظم کیا جائے کہ اِس سے پشاور کی تاریخ و ثقافت اور رہن سہن کا تسلسل رہے اور سب سے بڑھ کر اندرون شہر ٹریفک کے دباؤ میں کمی لائی جائے۔ ٹریفک پولیس کی جانب سے اندرون شہر کی چند شاہراؤں کو ’یک طرفہ (One Way)‘ آمدورفت (ٹریفک) کے لئے مختص کیا گیا ہے لیکن اِس قاعدے (نظم و ضبط) پر خاطرخواہ سنجیدگی سے عمل درآمد نہیں ہوتا۔ ’ون وے‘ کی کھلم کھلا اور مضحکہ خیز خلاف ورزی ’پانچ مقامات‘ پر انتہائی بدصورت منظر پیش کرتی ہے۔ پہلی خلاف ورزی سینما روڈ سے کابلی گیٹ‘ دوسری خلاف ورزی کابلی گیٹ سے قصہ خوانی‘ تیسری خلاف ورزی گھنٹہ گھر سے چوک یادگار‘ چوتھی خلاف ورزی کوہاٹی گیٹ سے چوک ناصر خان اور پانچویں خلاف ورزی سرکی گیٹ سے نمک منڈی اور اِسی کی ایک شاخ نمک منڈی چوک سے جہانگیرپورہ کے راستے کوہاٹی گیٹ کی جانب دیکھنے میں آتی ہے۔ 
اندرون شہر سے متعلق ’ٹریفک حکمت ِعملی‘ وضع کرنے والوں کو تاجروں اور دکانداروں کی نمائندہ تنظیموں کے دباؤ اور اِن کے سیاسی اثرورسوخ سے نمٹنے کیلئے بھی ’لائحہ عمل‘ وضع کرنا پڑے گا‘ جس کی وجہ سے اندرون شہر سفر کرنا کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہیں رہا۔ پشاور سے محبت (حسن ِسلوک)‘ اہل پشاور کا ایک دوسرے سے شناسی یا ناشناسی کے باوجود بھی تعظیم و تعلق کا رشتہ اور بالعموم سماجی ادب و آداب جس تیزی سے معدوم (گم) ہوئے ہیں اُس کا شاخسانہ اور خمیازہ وہ طبقات زیادہ شدت سے محسوس کر رہے ہیں‘ جن کا پشاور سے دلی تعلق آج بھی برقرار ہے اور جن کی دھڑکن پشاور میں یا اِس ’شہر ِدل پسند‘ سے فاصلے پر رہتے ہوئے بھی پشاور کے ساتھ دھڑکتی ہے۔