ایڈہاک ریلیف اور جامعات۔۔۔۔

اساتذہ نے جب اسلام آباد جاکر تیز پانی‘ شیلنگ لاٹھیوں اور گرفتاریوں کا سامنا کیا تو25 فیصد ایڈہاک ریلیف جیت گئے مگر ملک کے دوسرے صوبوں کے جامعات اساتذہ شاید مطمئن ہوں کہ کہیں سے کوئی آواز نہیں آرہی البتہ پشاور یونیورسٹی کیمپس کی چاروں جامعات کے اساتذہ کلاس تھری اور کلاس فور کے ایکا سے اسکے باوجود کچھ ہاتھ نہیں آیا کہ جون کے تندوری ماحول میں  ہفتہ بھر دھرنا دیکر بیٹھے رہے اور نعروں سے پورا کیمپس گونجتا رہا یہ مسئلہ ایک مراسلے سے پیدا ہوا‘ مطلب یہ کہ ملازمین تو اسلئے احتجاج کر رہے ہیں کہ موجودہ تنخواہوں اور الاؤنسز میں ان کا گزر بسر مشکل ہوگیا ہے لہٰذا اس میں معقول اضافہ کیا جائے الٹا کٹوتی کی بات کی گئی پھر کیا تھا بس یہ کہ کلاس فور اور کلاس تھری کے نعرے‘ چھلانگیں اور  معاملے میں وائس چانسلروں کو گھسیٹنے کی مہم جوئی‘ ایسے میں سیاسی عناصر کو بھی موقع میسر آیا اور تقریباً روزانہ یونیورسٹی ملازمین کے احتجاجی سٹیج کی زینت بنتے گئے یہ درست ہے کہ ملازمین اپنے دھرنے سے سیاسی لوگوں کو واپس تو نہیں بھیج سکتے مگر میرے خیال میں ایسا ہونا درست نہیں تھا ہفتہ بھر دھرنے کے بعد جب ملازمین مایوس ہوگئے تو ایسے میں مراسلہ معطل کرنے کی یقین دہانی ملازمین کیلئے دھرنا ختم کرنے کا جواز بن گئی اور یوں یار لوگ خالی ہاتھ واپس لوٹ گئے اس دوران تو ایک بار پھر روڈ بندش کی جذباتیت کیساتھ انہوں نے لاٹھیوں اور شیلنگ کا بھی سامنا کیا مگر کیا کریں کہ نصیب اپنا اپنا‘ ایسے میں وفاقی حکومت نے25 فیصد ایڈہاک ریلیف یا مہنگائی الاؤنس سمجھ لیں کا اعلان بھی کیا مگر بات غیر واضح تھی کہ آیا  ملک بھر کے تمام ملازمین کو عبوری امداد ملے گی یا محض وفاقی اداروں کو؟ بہرکیف اعلیٰ تعلیمی کمیشن نے دیر آید درست آید کے مصداق وفاقی بجٹ کے بعد ایک موقع پر اعلامیہ جاری کرتے  ہوئے وضاحت کردی کہ25فیصد ایڈہاک ریلیف وفاق کے زیر انتظام چلنے والے اداروں کے ملازمین کیلئے ہے جبکہ یہ صوبوں کی صوابدید ہے کہ وہ اپنے  ملازمین کو یہ ریلیف دیتی ہے یا نہیں‘ خیر خیبرپختونخوا میں توریلیف دینے کا اعلان کیا گیا ہے البتہ عملدرآمد کے بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ اب کہنے کی بات یہ ہے کہ یونیورسٹی ملازمین کا کیا بنے گا؟ آیا حکومت  ان کیلئے جامعات کو گرانٹ دینے جارہی ہے یا یہ بوجھ بھی مالی بحران سے یونیورسٹیوں کے تھکے ماندے کندھوں پر ڈالا جائے گا؟ اگرعبوری ریلیف کیلئے گرانٹ نہیں دی گئی تو سمجھ لیں کہ بہت جلد ایک اور مسئلہ جنم لینے والا ہے کیونکہ یونیورسٹیوں کی مالی پوزیشن تو اس وقت کچھ یوں ہے کہ تنخواہوں اور الاؤنسز کی ادائیگی کیلئے بھی قرضے لے رہی ہیں تو25 فیصد ایڈہاک ریلیف کہاں سے لائیں گی؟ درمیان کی بات یہ ہے کہ جب یونیورسٹیاں آئینی طور پر صوبے کے پاس ہیں تو ان کا سنبھالنا بلاشبہ صوبے کی ذمہ داری ہے شاہانہ اخراجات کی بات تو خیر درکنار اب تو مسئلہ محض دو وقت کی روٹی کا ہے اور ساتھ ہی ہرمہینے بھاری ہونے  والے یوٹیلٹی بلوں‘ تعلیم اور علاج کا تو ذکر ہی کیا وہ تو اب متوسط طبقے کے بس کی بات بھی نہیں رہی تو غریب مزدور کار اور یونیورسٹیوں کے کلاس فور کا کیا کہئے درحقیقت شاہانہ اخراجات جہاں پر ہوتے ہیں اور جسے کم کرنے کی ضرورت ہے اس طرف کوئی دھیان ہی نہیں دیتا البتہ جہاں تک کفایت شعاری اور اپنی مدد آپ کے جذبے اور اونر شپ کے احساس کا تعلق ہے تو اس طرف یونیورسٹی ملازمین شاید اسلئے متوجہ نہیں ہوتے کہ وہ دیکھتے ہیں کہ یہ جذبہ ملک بھر میں بالخصوص اقتدار کے ایوانوں میں کہیں بھی نظر نہیں آتا یہ بھی ممکن ہے کہ جب تک یہ موجودہ روز افزوں مہنگائی کنٹرول نہ ہو اس وقت تک یہ جذبہ زندہ درگور ہی رہے۔