غریب عوام مالدار حکمران۔۔۔۔

اگلے روز سوشل میڈیا پر طالبان نے ایک ویڈیو وائرل کی جس میں انہیں افغانستان میں شمالی اتحاد کے مشہور لیڈر دشید دوستم کے محل نما گھر پر قبضہ کرتے ہوئے دکھایا گیا اس عظیم الشان محل کو دیکھ کر بزرگوں کی یہ بات سمجھ میں آ جاتی ہے کہ تیسری دنیا میں بسنے والی رعایا اور عوام کیوں غریب ہوتے ہیں جب کہ ان کے رہنما دولت سے کھیلتے ہیں۔ چند دن پہلے طالبان نے افغانستان کے ایک نہایت اہم صوبے نمروز پر قبضہ کر لیا ہے یہ وہ علاقہ ہے کہ جو ایران کے ساتھ جڑا ہوا ہے اور سٹریٹیجک لحاظ سے بڑا اہم ہے اور جہاں بھارت نے مواصلاتی نظام میں کافی سرمایہ کاری کی ہوئی ہے تاکہ اس رستے اس کی افغانستان تک رسائی آسانی سے ہوسکے۔طالبان کے ہاتھ میں اس صوبے کے چلے جانے کے بعد بھارت کو اس خطے میں ایک اور دھچکا لگا ہے۔ ادھر ایران میں نئے صدر ابراہیم رئیسی نے اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیا ہے صدارتی حلف لینے کی تقریب میں ستر ممالک کے سربراہان اور وفود نے شرکت کی۔ ابراہیم رئیسی کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ وہ سخت قسم کے ایڈمنسٹریٹر بھی ہیں۔ابراہیم رئیسی نے بڑے مشکل حالات میں ایران کے صدر کا عہدہ سنبھالا ہے انہیں اگر ایک طرف امریکہ کے ساتھ نیوکلیئر ڈیل کو حتمی شکل دینی ہے تو دوسری جانب افغانستان کے بارے میں پھونک پھونک کر قدم اٹھانا ہوگا اور ایسی پالیسی مرتب کرنا ہو گی کہ جس سے چین ایران سے نالاں نہ ہو ان کے پیش نظر یقینا یہ بات ہوگی کہ جب جب امریکہ کے کہنے پر دنیا کے اکثر ملکوں نے ایران کے خلاف اقتصادی پابندیاں لگائی تھیں تو ان مشکل حالات میں چین نے پس پردہ ایرانی کا ہاتھ تھاما تھا لہٰذا ان کی یہ کوشش ہو گی کہ ان کی حکومت سے کوئی ایسی حرکت سرزد نہ کہ جو چین کو نا گوار گزرے اسی طرح ایران کو روس کے ساتھ بھی اپنے تعلقات بہتر بنانے ہوں گے اور افغانستان میں آئینی طریقے سے جو بھی بر سر اقتدار آتا ہے اس کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرنے ہوں گے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ دنیا میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو ختم کرنے کے درپے ہے اور اسی طرح بھارت کی کوشش ہے کہ پاکستان کو کسی نہ کسی طریقے سے غیر مستحکم کیا جائے بھارت اس وقت چین کی مخالفت میں امریکہ کا آ لہ کار ہے اگر امریکہ واقعی افغانستان میں امن کے قیام کیلئے سنجیدہ ہوتا تو وہ اشرف غنی پر اس وقت پریشر ڈالتا کہ وہ طالبان سے بات چیت کا دروازہ کھول دے کہ جو عرصہ دراز سے گفت و شنید کا مطالبہ کر رہے تھے پر اس نے ایسا نہیں کیا۔ اب جبکہ طالبان کو اچھی طرح پتہ چل چکا ہے کہ حکومت کے پاؤں ریت جیسے ہیں اور وہ اپنی ہار کو دیکھ کر مذاکرات کی بات کر رہی ہے تو وہ اشرف غنی کی حکومت سے بھلا مذاکرات کیوں کریں وہ تو یہ سمجھ رہے ہیں کہ اب وہ جنگ جیت رہے ہیں ا امریکہ کے خلاف افغانستان میں آج جو نفرت پائی جاتی ہے اس کی تمام تر ذمہ داری امریکی قیادت پر عائد ہوتی ہے۔ آپ کو یاد ہوگا انیس سو اسی کی دہائی میں افغانستان میں سوویت یونین کی مسلح مداخلت کے خلاف اس وقت امریکہ نے افغان جنگجوؤں کی بھر پور امداد کی تھی جس کے نتیجے میں سوویت یونین کو افغانستان سے اپنی فوجیں نکالنا پڑی تھیں اس جنگ میں افغانستان کا تقریبا ًتقریباً تمام فزیکل انفراسٹرکچر تباہ و برباد ہو چکا تھا اس وقت ایک عام افغانی کے دل میں امریکہ کیلئے خیر سگالی کا جذبہ تھا اگر اس وقت امریکہ کی قیادت میں ذرا سی بھی دانشمندی ہوتی تو وہ افغانیوں کے اس خیر سگالی کے جذبے کو کیش کر کے افغانستان کے ٹوٹے پھوٹے فزیکل انفراسٹرکچر کی بحالی کیلئے ایک بڑا ترقیاتی منصوبہ بناتی بالکل اسی طرز کا کہ جس طرح دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ کی بحالی کیلئے مارشل پلان کے نام سے ایک ڈویلپمنٹ پیکیج بنایا گیا تھا اگر وہ ایسا کرتی تو افغانستان کبھی بھی سیاسی طور امریکہ کے ہاتھ سے نہ نکلتا پر امریکہ نے یہ موقع گنوا دیا اور افغانستان کو بے یار و مدد گار چھوڑ کر وہاں سے نکل گیا۔