یادش بخیر ایک وقت وہ بھی تھا جب دنیا میں سب سے زیادہ پناہ گزینوں کی میزبانی پاکستان کر رہا تھا لیکن اب صورتحال مختلف ہے اور پاکستان حکومت نے دنیا کو واضح پیغام دیا ہے کہ اِن کا ملک مزید افغان پناہ گزینوں کو رکھنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ پاکستان دنیا کو یہ بات بھی یاد دلا رہا ہے کہ جن افغان مہاجرین کو وہ پاکستان میں رکھ کر بھول چکے ہیں اُن کی تعداد 30 لاکھ سے زیادہ ہے اور اِن میں قانونی و غیرقانونی طور پر مقیم افغان مہاجرین شامل ہیں جن کے خلاف اگر پاکستان کے قوانین کے مطابق کاروائی کی جاتی ہے اور اُنہیں زبردستی ملک بدر کیا جاتا ہے تو اِس پر عالمی برادری چلا اُٹھتی ہے لیکن پاکستان کے معاشی و سیکورٹی مسائل کی ضروریات (تقاضوں) کو خاطرخواہ نہیں سمجھتی۔اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین کے مطابق پاکستان میں رجسٹرڈ افغان پناہ گزینوں کی تعداد چودہ لاکھ ہے جبکہ آٹھ لاکھ اَسی ہزار افغانوں کو افغان شہریت کارڈ دیا گیا ہے یعنی وہ پاکستان میں رہنے والے افغان شہری ہیں جبکہ چار سے پانچ لاکھ ایسے افغان شہری ہیں جن کی کسی قسم کی رجسٹریشن نہیں ہوئی۔ پاکستان کہتا ہے کہ بیس سے پچیس ہزار افغان شہری روزانہ کی بنیاد پر افغانستان سے پاکستان آ رہے ہیں تاہم وزارت داخلہ کاکہنا ہے کہ پندرہ اگست سے اب تک پاکستان میں ایک بھی افغان پناہ گزین داخل نہیں ہوا لیکن نامکمل سفری دستاویزات کے ساتھ پاکستان آنے والے افغان شہریوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جنہیں مہاجرین کی حیثیت سے تسلیم نہیں کیا جا رہا اور یہ بات اِن ہزاروں افغانوں کیلئے پریشانی کا باعث بنی ہوئی ہے۔ مہاجرین کے بارے میں عالمی قوانین نہایت واضح ہیں۔ کس شخص کو پناہ گزین قرار دیا جائے اور کس کو نہیں‘ ایک پناہ گزین کے میزبان ملک میں کیا حقوق ہوتے ہیں اور انہیں پناہ دینے والے ملک کے فرائض کیا ہیں‘ اِن سبھی باتوں کا تعین ”بین الاقوامی قانون جنیوا کنونشن برائے پناہ گزین 1951ء“ میں موجود ہے۔ ابتدا میں اس قانون کا اطلاق جنگ عظیم دوئم سے متاثرہ یورپی پناہ گزینوں تک تھا لیکن 1967ء پروٹوکول کے تحت اس کا دائرہ کار تمام ممالک کے حدود اور شہریوں تک بڑھا دیا گیا ہے۔ مذکورہ کنونشن کے تحت یہ ذمہ داری میزبان ملک کی ہے کہ وہ اپنی سرحد میں داخل ہونے والے کسی بھی غیر ملکی کو ’پناہ گزین‘ قرار دینے یا نہ دینے سے متعلق فیصلہ کرے۔ اس وقت دنیا میں 149 ممالک دونوں یا کسی ایک کنونشن کا حصہ ہیں لیکن پاکستان نے مذکورہ عالمی معاہدے (کنونشن) پر دستخط نہیں کئے لہٰذا اس کا اطلاق پاکستان پر نہیں ہوتا۔ پاکستان بھارت افغانستان سمیت دنیا میں اکیاون ممالک ایسے ہیں جو جنیوا کنونشن برائے پناہ گزین کا حصہ نہیں اور ان ملکوں میں آنے والے غیر ملکیوں کو ’پناہ گزین‘ قرار دینا اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین کی ذمہ داری ہے جو کہ عمومی طور پر میزبان ملک کی مشاورت کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ اب آتے ہیں افغانستان کی موجودہ صورتحال کے بارے میں جہاں کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد پاکستان نے اب تک کسی ایک افغان شہری کو بطور پناہ گزین رجسٹر نہیں کیا تاہم مستقبل قریب میں پاکستان ایسا کرے گا یا نہیں اس متعلق کوئی بات وثوق سے نہیں کہی جا سکتی۔ پاکستان آنے والے افغانوں کو حکومت بطور پناہ گزین نہیں بلکہ تجارت‘ کام‘ تعلیم اور علاج کی غرض سے آنے والے مہمانوں کے طور پر دیکھتی ہے تاہم پاکستان میں اقوام متحدہ کا ادارہ برائے پناہ گزین کا دفتر پاکستان آنے والے افغان شہریوں کو پناہ گزین دیتی ہے اور اِنہیں اقوام متحدہ کی ذمہ داری سمجھتی ہے لیکن ماضی میں بھی یواین ایچ سی آر نے مہاجرین کے قیام کا فیصلہ پاکستان کی حکومت سے مشاورت سے کیا تھا اور اب بھی اِس بات کی منتظر ہے کہ پاکستان انسانی ہمدردی کے تحت مہاجرین کو ماضی کی طرح قبول کرے۔ یو این ایچ سی آر کا ادارہ دو طریقوں سے کسی شخص کو پناہ گزین قرار دیتا ہے۔ ایک یہ کہ اپنا ملک چھوڑ کر آنے والا پناہ گزین کی حیثیت کیلئے خود ادارے کو درخواست دے اور ادارہ اس درخواست کی جانچ پڑتال اور اس فرد کے انٹرویو کے بعد انہیں پناہ گزین قرار دینے یا نہ دینے سے متعلق فیصلہ کرے۔ دوسرا طریقہ کار یہ کہ جب کسی ملک میں سکیورٹی صورت حال اس قدر خراب ہو جائے کہ وہاں لوگ بڑی تعداد میں نقل مکانی کرنا شروع کر دیں تو ایسی صورت میں یو این ایچ سی آر کا ادارہ اس ملک سے آنے والوں کو مجموعی طور پر پناہ گزین قرار دے دیتا ہے تاہم یہ فیصلہ حکومت کے ساتھ مشاورت کے بعد ہی کیا جاتا ہے۔ سوویت یونین اور امریکی افواج کے افغانستان پر حملے کے بعد بڑی تعداد میں افغان پناہ گزین پاکستان آئے اور ان کو مجموعی طور پر پناہ گزین قرار دیا گیا۔ افغانستان سے اِس وقت شہری پاکستان آ رہے ہیں اُن پر عالمی برادری اور بالخصوص یو این ایچ سی آر نظر رکھے ہوئے ہے لیکن ان افغان شہریوں کوپناہ گزین قرار دینے سے متعلق تاحال فیصلہ نہیں ہوا اور ایسے کسی فیصلے کا شدت سے اُن افغانوں کو انتظار ہے جو کسی طریقے پاکستان میں داخل ہو چکے ہیں اور اب واپس جانا نہیں چاہتے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: ڈاکٹر یاسر نواز۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)