جانے والے یہاں کے تھے ہی نہیں 

 جن دنوں میں کوہاٹ روڈ کی سرکاری رہائش گاہ گلشن رحمن میں تھا تو ایک شام میرے پاس ہمدرد فاؤنڈیشن کے ایک ہنس مکھ عزیز دوست آئے اور حسب معمول ہم کھلنڈرے موڈ میں بات چیت کر رہے تھے، وقفے وقفے سے بلند بانگ قہقہے بھی گفتگو کو پر لطف بنا ئے ہوئے تھے، میرے یہ دوست محمد اسلم تھے جودراصل یاد دہانی کے لئے آئے تھے کہ کل شام کو جو شام ہمدرد پشاور کے پنج ستاری ہوٹل میں ہو نا تھی،مجھے اس کی کمپیئرنگ کرنا تھی میں اس کے لئے بروقت پہنچ جاؤں، پہلا قہقہہ اسی پر پڑا تھا کہ کسی بھی تقریب میں بر وقت کیونکر پہنچ پاؤں گا، محمد اسلم نے کہا کہ چونکہ نصف صدی سے شام ہمدرد کے اجلاس کبھی دیر سے شروع نہیں ہوئے اس لئے میں خصوصی طور پر آج آپ سے کہنے آیا ہوں، مجھے معلوم تھا غالباًساٹھ کی دہائی کے شروع شروع ہی میں شام ہمدرد کا آغاز پاکستان کے چار بڑے شہروں میں ہوا تھا، میری حکیم سعید سے پہلی ملاقات تو اکوڑہ خٹک میں ہوئی تھی جب وہ پشاور سے اسلام آباد جرنیلی سڑک سے جایا کرتے تھے اور بیشتر اوقات سڑک کنارے آباد اکوڑہ خٹک کے محلہ ”علی گڑھ“ میں چند لمحوں کے لئے شاعر ادیب،دانشور اور کل پاکستان ٹیچرز ایسوسی ایشن کے صدر سید غلام علی شاہ (شرر بخاری) کے مہمان ہوا کرتے، اس نئی آبادی کا نام ’’علی گڑھ“ انہوں نے رکھا تھا کیونکہ پہلا گھر شرر بخاری کا تھا جس کے ساتھ ہی انہوں نے ”عزیز ادبی ہال“ بھی بنایا تھا جہاں ادبی تقریبات اور مشاعرے ہوا کرتے تھے، میرے وہ ٹیچر بھی تھے اور رشتے میں ماموں بھی تھے، سو ہمیں سکول کے بعد مہمانوں کی سیوا کے لئے وہ اکثر بلا لیا کرتے تھے، اس لئے کئی بار حکیم سعید سے (ذرا فاصلہ ہی سے سہی) ملاقات ہوئی،، پھر جب میں ساٹھ کی دہائی کے آخرآخر میں پشاور آیا اور قلم قبیلہ میں شامل ہوا تو ان دنوں جمیل صدیقی کا طوطی بولتا تھا وہ بینکر تھے مگر ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں میں پیش پیش تھے، اور شام ہمدرد کی نظامت بھی کیا کرتے تھے، ان ہی دعوت پر میں پہلی بار پنج ستاری ہوٹل میں شام ہمدرد کی تقریب میں شریک ہوا تھا، قلم قبیلہ کے اور بہت سے دوست بھی آیا کرتے تھے، شام ہمدرد میں جمیل صدیقی کا اپنا ایک رکھ رکھاؤتھا، کچھ دوستوں کو انہوں نے شام ہمدرد کی رپورٹنگ کی ذمہ داری بھی دی تھی ان میں بعد کے زمانے کے بڑے نام بھی شامل ہیں، یہ ذمہ داری حکیم انیس کے پاس بھی رہی ہے اور خاطر غزنوی کے پاس بھی اور سچ یہ ہے کہ خاطر غزنوی کے دور میں اس شام کی شان دیدنی تھی اس میں بڑے بڑے زعماء شریک ہوتے تھے۔مگر پھر انہوں نے بوجوہ نظامت چھوڑ دی تھی۔ تو یہ ذمہ داری ظہور اعوان کے سپرد ہوئی، مجھے اب یاد نہیں کہ اس دوران کب اور کس لمحے میری پہلی ملاقات محمد اسلم سے ہوئی، مگر ہم غیر محسوس طریقے سے قریب آئے اور پھر بہت دوستی ہوئی مجھے انہوں نے حکیم سعید شہید کے بہت سے واقعات سنائے، سناتے رہتے تھے، وہ ہمدرد فاؤنڈیشن کے محض اہلکار نہ تھے انہیں حکیم شہید سے والہانہ عقیدت اور محبت تھی۔ بہانے بہانے ان کا کوئی قصہ چھیڑ دیتے تھے، ایک واقعہ تو میں کبھی نہیں بھول سکتا محمد اسلم کہتے ہیں حکیم سعید ہمیشہ روزے سے رہتے تھے ایک دن پشاور میں تھے تو ظہر کے نماز کے بعد ہم بیٹھے تھے کہنے لگے معلوم نہیں آج بریانی کھانے کو بہت جی چاہتا ہے، میں نے کہا بنوا لوں گا افطاری کے بعد پہلے بریانی کھا لیں مگر انہوں نے منع کر دیا، اتنے میں ایک دوست تشریف لائے اور حکیم سعید کو افطار ڈنر پر مدعو کیا،آپ نے حامی بھر لی، جب ہم کھانے کی میز پر پہنچے تو میری نظر بریانی پر پڑی، میں نے دیکھا حکیم سعید پلیٹ میں سبزی ڈال رہے ہیں میں نے خوش ہو کر کہا کہ جی بریانی بھی ہے، کہنے لگے جی میں نے دیکھی ہے، کھانا کھا لیا مگر بریانی کو چھوا بھی نہیں، واپسی پر میں نے پوچھا کہ آپ نے بریانی کی خواہش کی تھی مگر آپ نے لی نہیں، کہنے لگے ”کیا کیا جائے نفس کو قابورکھنا بھی ضروری ہے اس کی ہر خواہش پوری کی جائے تو من مانی پر اتر آتا ہے۔“ ایسے کئی واقعات کے محمداسلم چشم دید گواہ تھے،ان کی خواہش کے باوجود میں نے اسی لئے کبھی شام ہمدرد کی کسی تقریب کی نظامت کی حامی نہیں بھری تھی،کیوں کہ ان کے اجلاس برقت شروع ہوتے ہیں، اب کے جب مجھے بطور خاص حکیم سعید کا تحریری پیغام ہفتہ بھر پہلے پہنچایا گیا تھا تو انکار کا یارا نہ تھا، یہ صرف ایک تقریب تک محدود نظامت کی دعوت تھی۔ کیونکہ ان دنوں نظامت کی ذمہ داری ڈاکٹر ظہور اعوان کی تھی اور ہمدرد فاؤنڈیشن نے کچھ خواتین و حضرات کو یادگاری شیلڈ دینا تھیں اور ان کے حوالے سے گفتگو بھی کرنا تھی ان میں ظہور اعوان بھی شامل تھے اس لئے یہی سوچا گیا کہ اس تقریب کی نظامت وہ نہ کریں یوں قرعہ فال میرے نام نکلا کہ ان سب خواتین و حضرات کو میں بخوبی جانتا تھا اور ان پر ٹوٹی پھوٹی گفتگو بھی کر سکتا تھا، اورمحمد اسلم اس شام میرے پاس آئے تھے تو اپنے ساتھ ایک فائل بھی لائے تھے۔ کہنے لگے اس میں ایوارڈ یافتگاں کا تعارفی خاکہ ہے، میں نے کہا کہ سب دوست ہیں میں ان کے نام اور کام سے کچھ کچھ واقف بھی ہوں اس لئے مجھے فائل سے نہ باندھیں کہ میں ویسے بھی سٹیج پر کبھی ”کاغذی نظامت“ کا قائل نہیں ہوں، اس طرح کمپیئر حاضرین سے کٹ جاتا ہے آپ یہ فائل اپنے پاس رکھیں مجھے ضرورت ہوئی تو آپ کو سٹیج پر بلا کر سائی ٹیشن پڑھوا لوں گا اس پر میرے دوست نے کانوں کو ہاتھ لگائے اور کہا یہ ظلم مجھ پر مت ڈھانا،میں انہیں چھیڑتا رہا وہ جھینپ کرتوبہ توبہ کرتے رہے، ان کے ساتھ ایک اور دوست بھی تھے میں ان کا نام بھول گیا، ابھی ہماری یہ گپ شپ اور ہنسی مذاق چل ہی رہا تھا کہ میرے ایک پڑوسی آگئے اور آتے ہی انہوں نے کہا کہ میں گاؤں میں تھا اور ابھی واپس آیا ہوں تو مجھے آپ کے گھر چوری کا علم ہوا ہے، یہ سب کیسے ہوا، میں پڑوسی کو زیادہ تفصیل نہیں بتانا چاہتا تھا کہ محمد اسلم کو معلوم نہ ہو، مگر محمد اسلم پوچھنے لگے کہ کیا ہوا میں نے ٹالنا چاہا مگر وہ بضد رہے سو بتاناپڑا کہ آج صبح جب افراز علی سید سکول اور میں اور بیگم جاب پر چلے گئے تو پڑوسیوں نے بتایا آپ کا دروازہ کھلا ہے، ہم بھاگے بھاگے آئے تو سارے گھر میں جھاڑو پھر چکاتھا۔،مختصر یہ کہ میں نے پندرہ برس میں جو چھوٹا موٹا سا گھر بنانے کی کوشش کی تھی، وہ سب چلا گیا۔ مجھے یاد ہے محمد اسلم رو پڑے اور کہنے لگے یہ کب کی بات ہے میں نے کہا آج صبح کی،روتے روتے کہنے لگا یار تو کس مٹی کا بنا ہے آج ہی تیرے ساتھ اتنی بڑی ٹریجڈی ہوئی ہے اور تو پچھلے آدھ گھنٹہ سے قہقہے لگا رہا ہے، میں نے کہاپہلی بار میرے گھر آئے ہیں اس لئے بات چھپانا پڑی اور دوسرے دن اپنے سارے ریکارڈ بالائے طاق رکھ کر میں بروقت پہنچ گیا، اچھی گیدرنگ تھی لیکن جب تقریب ختم ہوئی تو محمد اسلم نے کہا کہ حکیم سعید آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں میں چلا گیا پرانی نیازمندی تھی بہت تپاک سے ملے،نظامت کی تعریف کی اور کہا کہ آپ کے ساتھ کل جو ٹریجڈی ہوئی مجھے اس کا بہت افسوس ہے،مگر میں آپ کے حوصلہ کی داد دینا چاہتا ہوں آپ کے اعصاب بہت مضبوط ہیں (شاید تب رہے ہوں) پھر محمد اسلم کی وساطت سے ا نہوں نے دو ن بعد رابطہ کیا مگر وہ کہانی پھر سہی کیونکہ اب میرے دوست میرے رازدار دوست محمد اسلم بھی ہم سے بچھڑ گئے۔ محمد اسلم کو ان سے ملنے والا شاید کوئی ایسا شخص ہو جو انہیں بھلا پائے گا۔جون ایلیا نے کی خوب کہا ہے