عدم مساوات 

تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ ابتدائے افرینش سے لے کر اب تک یہ بحث چل رہی ہے کہ کونسا معاشی نظام بہترین ہے سرمایہ دارانہ نظام کے داعی اس کی خوبیوں کے گن گاتے ہیں تو اس کے بر عکس دیگر نظاموں کے داعی سرمایہ دارانہ نظام کے نقائص پر انگلیاں اٹھانے ہیں۔ہنوز یہ بحث جاری ہے، آئیے اس گنجلک موضوع پر آج کے کالم میں ایک ہلکی سرسری سی بحث ہو جائے۔مساوات سے مراد وہ سماجی نظام ہے جس میں پیداوار کے تمام ذرائع زمین،معدنیات،کارخانے،فیکٹریاں،بینک،تجارت وغیرہ معاشرے کی مشترکہ ملکیت ہوتے ہیں اور ان کی پیداوار جسمانی اور ذہنی کام کرنے والوں کی تخلیقی محنت کے مطابق تقسیم کی جاتی ہے اس کے بر عکس طبقاتی نظام کی اپنی شرع اپنا آئین ہوتا ہے اس آئین کے مطابق دولت پیدا کرنے کے تمام ذرائع زمین پانی باغ تجارتی کاروبار ایک مخصوص طبقے کی ملکیت ہو جاتے ہیں۔افلاطون پہلا مفکر ہے جس نے آج سے 22 سو برس پہلے مثالی معاشرے کا ایک جامع منصوبہ مرتب کیا تھا اس موضوع پر اس کی شہرہ آفاق تصنیف ریپبلک کی شکل میں آج بھی موجود ہے،افلاطون کا ہم عصر آئی سو کریٹس لکھتا ہے کہ دولت مند طبقہ اتنا سماج دشمن ہو گیا ہے کہ وہ اپنی املاک سمندر میں تو پھینک دے گا مگر کسی حاجت مند کو ہرگز نہ دے گا اس کے دور میں بدنظمی اتنی بڑھ گئی تھی کہ دولت مند طبقہ اپنے اقدار کے تحفظ کے لئے برے سے برے کام سے بھی دریغ نہ کرتا تھا لیکن افلاطونی عہد کے ایتھنز میں شہریوں کے ووٹ کی باقاعدہ خرید و فروخت ہوتی تھیں۔مشہور درویش صفت فلسفی دیوجانس بھی دولت کے ارتکاز انتقال اور دولت مندوں کی عیش پسندی پر برسرعام ملامت کرتا تھا،وہ خود نہایت سادہ زندگی گزارتا تھا اور دوسروں کو بھی انکساری کی تلقین کرتا تھا اس کا استاد اینٹتینیز ذاتی ملکیت سے سخت بیزار تھا،وہ ایسے مدرسے میں پڑھاتا تھا جہاں غریب بچے تعلیم پاتے تھے ان صداقت بیانیوں کی اسے سزا ملی اور غداری کے الزام میں اسے 72 سال کی عمر میں جلاوطن کر دیا گیا۔معیشت کے بارے میں مختلف ادوار میں فلسفیوں نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے مثلا ًچالس ہال کا کہنا ہے کہ معاشرہ دو طبقوں میں بٹا ہوا ہے ایک طبقہ دولت مندوں کا ہے اور دوسرا غریبوں کا ان دونوں طبقوں میں وہی رشتہ ہے جو الجبرا میں مثبت اور منفی میں ہے مشہور فلسفی روسو کے مطابق انسان نے اب تک جتنی خرابیاں پیدا کی ہیں اور جتنی مصیبتیں اٹھائیں ہیں ان کا باعث زمین پر ذاتی ملکیت کا حق ہے حالانکہ قدرت کا منشا یہ تھا کہ سب لوگ آپس میں مل جل کر رہیں انسان نے اس سے انحراف کیا اور نتیجہ یہ ہوا کہ معاشرہ آ قاؤں اور مزدوروں اور محنت کشوں میں بٹ گیا۔قدرت نے نہ بادشاہ پیدا کئے اور نہ حاکم نہ غلام نہ امیر قدرت نے ہر شخص کو آزاد اور مساوی پیدا کیا ہے جب قدرت نے انسانی تخلیق کا عمل مکمل کیا تو عدم مساوات کا نام و نشان تک نہ تھا اگر کوئی شخص یہ کہے کہ طبعی حالات کی وجہ سے انسانوں کے درمیان فرق پیدا ہو جاتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ قدرت کی صلاحیتیں سب لوگوں میں قریب قریب یکساں ہوتی ہیں جو فرق ہمیں نظر آتا ہے وہ دراصل تعلیم و تربیت اور معیار زندگی کے فرق کا نتیجہ ہے اگر سب لوگوں کو مساوی مواقع حاصل ہوں تو انکی خداداد قابلیت یکساں طور پر چمکے گی معاشرے کی تمام اخلاقی برائیوں کی جڑ ذاتی ملکیت ہے ایسا نظام زندگی وضع کرنا ضروری ہے کہ جس کی پہلی شرط یہ ہو کہ ذاتی استعمال کی چیزوں کے علاوہ تمام ذاتی ملکیت ریاست کی تحویل میں لے لی جائے دوسری شرط یہ ہو کہ ہر شخص کو ریاست روزگار فراہم کرے ‘تیسری شرط یہ ہے کہ ہر شخص اپنی جسمانی قوت اپنی عمر اور اپنی لیاقت کے مطابق معاشرے کی خدمت کرے۔