درس و تدریس میں بار بار تعطل کی وجہ سے بچوں کی تعلیمی عمل میں دلچسپی کم ہو رہی ہے اور ماضی میں بچے جن تعلیمی معمولات میں فعالیت سے حصہ لیتے تھے اب اُن پر سستی حاوی نظر آتی ہے۔ بچے کچھ بڑا کرنا چاہتے ہیں۔ اُن کے خیالات بلند ہیں لیکن اُن میں کام کرنے کی ہمت اور ارادہ کمزور پڑ گیا ہے۔ یہ ایک ایسی صورتحال ہے جس میں طلبہ کو ’یہ معلوم نہیں ہوتا کہ پڑھا کیسے جائے‘ اور اکثر طلبہ ہی اس صورتحال کا شکار ہوتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ان میں تعلیم کی طلب نہیں ہے یا انہیں درست سمت معلوم نہیں ہے بلکہ انہیں یہ نہیں معلوم کہ تعلیم حاصل کس طرح کی جائے۔ ان میں سے کچھ تو معلومات کے سمندر میں گم ہوکر رہ گئے ہیں اور کچھ سخت ٹیوشن کے شیڈول پر عمل کرتے ہیں جس کی وجہ سے وہ کچھ وقت کتابوں سے دور گزارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ طلبہ ناکام ہونے کے خوف کا بھی شکار ہوتے ہیں جس کی وجہ سے وہ ان کتابوں سے دور رہتے ہیں جو وقت اور توجہ کی متقاضی ہوتی ہیں۔ میری طرح وہ لوگ جو نئی نسل میں تعلیمی عادت کا فروغ چاہتے ہیں‘ انہیں یہ معلوم ہونا ضروری ہے کہ سستی کی وجہ جاننے سے زیادہ اہم کام طلبہ کو درست سمت فراہم کرنا ہے۔ پڑھائی کیلئے روزنامچہ بنانا ایک بہت ہی مشکل کام ہے‘ ہم میں سے جن لوگوں نے اس کا تجربہ کیا ہے وہ یہ جانتے ہیں کہ کسی فرد کیلئے ایسی فہرست کو دیکھنا کتنا تکلیف دہ ہوسکتا ہے جس میں کوئی بھی چیز وقت پر نہ کی گئی ہو۔ ہر شخص میں کسی شیڈول پر سختی سے عمل کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔ یہ سستی‘ تاخیر‘ گریز‘ فرار درحقیقت ایسے رجحانات کے کئی نام ہیں جو بہت سے طلبہ کو پریشان رکھتے ہیں۔ اکثر بیماریوں کی طرح اس رجحان کو بھی ختم کرنے کا مؤثر طریقہ یہی ہے کہ شروع میں ہی اس پر قابو پالیا جائے۔ بدقسمتی سے ذہین طلبہ کی حوصل افزائی بیرونی اثر و رسوخ سے نہیں کی جاسکتی۔ ہماری نوجوان نسل کو بھیڑوں کے ریوڑ کی طرح ہانک کر انہیں تاریخی بیانیے‘ ریاضی کے فارمولے یا شاعری نہیں پڑھائی جاسکتی۔ یہ یوٹیوب کی نسل ہے اور یہ وہی چیز سیکھتی ہے جو اس کے تخیل کو متاثر کرے۔ انہیں کچھ بھی پڑھانے سے قبل ان کے سامنے اس سوال کا جواب رکھنا ہوگا کہ ’وہ یہ چیز کیوں پڑھیں‘ اور پھر ان کے سامنے ضروت اور تجربے کی روشنی میں سیکھنے کا مکمل سیاق و سباق رکھنا ہوگا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سیکھنے اور تعلیم حاصل کرنے کیلئے انہیں اپنے اندر کن صلاحیتوں کو پیدا کرنا ہوگا؟ اس ضمن میں پہلی چیز تو وقت کا درست استعمال ہے۔ شاید اس سے ہمیں یہ جاننے میں مدد ملے گی کہ ہمارے ڈیجیٹل باشندے وقت کو مختلف انداز سے سمجھتے ہیں۔ وہ فی منٹ اتنی معلومات حاصل کرلیتے ہیں جس کے حصول میں ان کے اجداد کو نصف برس کا عرصہ لگا تھا۔ پھر دوسری اہم چیز گھنٹوں تک ایک طویل باب کو پڑھنے کے بجائے کام کو چھوٹے حصوں میں تقسیم کرنا ہے‘ یوں وہ زیادہ بہتر اور تعمیری انداز میں کام کرسکیں گے۔ ہمیں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ یہ نسل بہت تیزی سے ٹائپنگ کرتی ہے‘ ایک وقت میں تین ڈیوائسز استعمال کرتی ہے اور لکھے ہوئے متن کے بجائے بصری معلومات پر انحصار کرتی ہے۔ کلاس روم میں یہ طریقہ اپنایا جاسکتا ہے جس میں طلبہ کے سامنے بصری معلومات پیش کی جائیں۔ معلم اس کے بارے میں مثالوں کے ساتھ گفتگو کرے اور طلبہ سے کہا جائے کہ انہوں نے جو کچھ سنا ہے اسے اپنے الفاظ میں بیان کریں یا لکھ کر لائیں۔ یوں طلبہ کو سبق یاد رکھنے میں مدد مل سکے گی۔ سیکھنے کے عمل میں طلبہ کی متحرک شمولیت بہت ضروری ہے۔ اس سے نہ صرف ان کی تعلیمی صلاحیتوں میں اضافہ ہوگا بلکہ اس کے اثرات ان کے مستقبل پر بھی پڑیں گے۔ طلبہ جو نوٹس لیتے ہیں وہ بعد میں انہیں بالکل نظر انداز کردیتے ہیں کیونکہ کسی متن میں سے کچھ ڈھونڈنا بہت مشکل کام ہوتا ہے۔ اس سے بہتر ہے کہ طلبہ کو مائنڈ میپ بنانا اور معلومات کے اہم نکات کو خاکوں کی صورت میں بنانا سکھایا جائے۔ جن لوگوں کو منصوبہ بندی کرنے یا اس پر عمل کرنے میں مشکل ہوتی ہے ان کے لئے ٹرائج کا نظام کارآمد ہوسکتا ہے۔ یہ نظام عموماً ہنگامی شعبوں میں استعمال ہوتا ہے اور اس میں کاموں کو فوری کاروائی کی ضرورت کے تحت ترجیح دی جاتی ہے۔ یہ نظام طلبہ کو موضوعات کی درجہ بندی میں مدد دے سکتا ہے۔ اس نظام کا استعمال طلبہ کو پیش آنے والی اس بے چینی سے بچنے کیلئے بھی کیا جاسکتا ہے جو معلومات کی بہتات اور تمام مضامین کو ایک ساتھ پڑھنے کی کوشش سے پیدا ہوتی ہے۔ جو لوگ سستی کا شکار ہوتے ہیں ان کیلئے ایک اور مفید تکنیک یہ ہے کہ وہ جو کچھ جانتے ہیں اسے اپنے ساتھیوں کو سکھائیں۔ روایتی طور پر دیکھا گیا ہے کہ مطالعاتی گروپ مفید انداز میں کام کرتے ہیں کیونکہ وہ دوستانہ ماحول میں باہمی تعاون کا موقع فراہم کرتے ہیں لیکن اس کیلئے منصوبہ بندی‘ وقت کا تعین اور اس پر قائم رہنے کیلئے سخت نظم و ضبط کی ضرورت پڑسکتی ہے۔ اکثر کوئی ایسا فرد بھی طلبہ کی مدد کا باعث بن سکتا ہے جو تدریس سے وابستہ تو نہ ہو لیکن طلبہ کی کارکردگی جانچنے کیلئے چھوٹے چھوٹے امتحانات لے کر ان کی مدد کرسکے۔ یوں تھوڑی سی حوصلہ افزائی اور بہت ساری خود اعتمادی کے ساتھ طلبہ کو یہ معلوم ہوجائے گا کہ ان کیلئے کون سا طریقہ مفید ہے۔ جو طلبہ اپنا متعین کیا ہوا ہدف حاصل کرتے ہیں ان میں سے اکثر وہ ہوتے ہیں جو اپنی صلاحیتوں پر یقین رکھتے ہیں اور اگر اِن کی درست رہنمائی کی جائے تو یہ وہ سب کچھ حاصل کر لیں گے جس کے خواب رکھتے ہیں۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: ندا ملجی۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)