توقع تھی کہ موسم برسات کی آغاز سے پہلے شاہراؤں کی تعمیر و مرمت اور کشادگی سمیت مرکزی شاہراہ کے دونوں اطراف نکاسیئ آب کے نالے پر قائم تجاوزات ختم کی جائیں گی لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا اور رواں برس معمول کی برسات بھی ایبٹ آباد میں جل تھل ایک کرنے کا باعث بنی اور شہر کے مہنگے ترین رہائشی علاقوں (جناح آباد‘ حبیب اللہ کالونی‘ بلال ٹاؤن‘ حسن ٹاؤن‘ شاہ زمان ٹاؤن اور کاغان کالونی و ملحقہ علاقے) زیرآب آئے جس سے سینکڑوں لاکھوں روپے کا نقصان ہوا اور یہ نقصان اور عوام کا غم و غصہ اِس حد تک زیادہ تھا کہ بارش سے آئی طغیانی کی شکایت قومی اسمبلی اور صوبائی اِسمبلی تک جا پہنچی جبکہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان نے اِیبٹ آباد سے تجاوزات کے خاتمے اور نکاسیئ آب کی صورتحال ترجیحاً بہتر بنانے کے احکامات جاری کئے۔’شاہراہ قراقرم‘ کی کل لمبائی 1300 کلومیٹر ہے‘ جس کا آغاز حسن ابدال (صوبہ پنجاب) سے ہوتا ہے اور یہ ہری پور (خیبرپختونخوا) کے راستے ایبٹ آباد سے شمالی علاقہ جات (گلگت بلتستان) سے ہوتی ہوئی چین کی قومی شاہراہ (چائنا نیشنل ہائی وے نمبر 314) سے جا ملتی ہے جو چین کا سرحدی علاقہ ژیانجینگ (Xinjiang)کا حصہ ہے۔ اِس تمہید سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ شاہراہ قراقرم اہم ترین تجارتی راہداری ہے جو دیگر شاہراؤں کی طرح بین الاضلاعی یا بین الاصوبائی نہیں بلکہ اِس کی اہمیت عمومی شاہراہ سے کہیں گنا زیادہ ہے۔ پاکستان میں اِسے ’قومی شاہراہ 35‘ یا N-35 کے نام سے بھی جانا جاتا ہے اور یہی شاہراہ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے کا بھی حصہ ہے۔ شاہراہ قراقرم کا نکتہئ آغاز اگرچہ حسن ابدال سے ہے لیکن ’گرینڈ ٹرنک (جی ٹی) روڈ‘ سے جڑی ہونے کے باعث یہ افغانستان کے راستے تاجکستان (وسط ایشیا) تک چلی جاتی ہے جبکہ اِس کا ایک سرا آزاد کشمیر سے اہم و کلیدی (سٹرٹیجک) زمینی راستہ ہے۔ پاکستان سے شاہراہ ریشم کا 806 کلومیٹر (501 میل) حصہ گزرتا ہے اور اگرچہ اِس کا آغاز ’حسن ابدال‘ سے ہوتا ہے لیکن شاہراہ کی دیکھ بھال کے لحاظ سے ’ایبٹ آباد‘ اِس کا تکنیکی نکتہئ آغاز ہے۔ تین عظیم پہاڑی سلسلوں (ہندوکش‘ ہمالیہ اور قراقرم) کے ساتھ اگر اِس شاہراہ پر سفر کیا جائے تو اِس دوران دنیا کی 9 ویں بلند ترین چوٹی ’نانگا پربت کا نظاہ کیا جا سکتا ہے یوں سیاحتی نکتہ نظر سے بھی ’شاہراہ قراقرم‘ کی خاص اہمیت ہے لیکن چونکہ یہ نصاب ِتعلیم کا حصہ نہیں اور نہ ہی قومی سطح پر اِس تاریخی راہداری جس کا ذکر تاریخ کی کتب میں بطور ’شاہراہئ ریشم‘ ملتا ہے خاطرخواہ زیرتوجہ ہے کہ اِس کے کسی مرکزی شہر میں عجائب گھر بنا کر شاہراہ قراقرم کی تاریخ کو نمائش کیلئے پیش کیا جاسکتا ہے۔ عوامی جمہوریہ چین کی جانب سے پشاور میں ’چائنا ونڈو کے نام سے ایک تاریخی و ثقافتی مرکز قائم کیا گیا ہے اور اِسی طرز کی ایک ’چائنا ونڈو‘ کی ضرورت ’ایبٹ آباد‘ میں بھی محسوس ہو رہی ہے۔ ذہن نشین رہے کہ مئی 2005ء میں ایبٹ آباد شہر اور چین کے پاکستان سے سرحدی علاقے کے مرکزی شہر کاشغر کو جڑواں شہر قرار دیا گیا تھا لیکن اِس سے زیادہ پیشرفت نہیں ہوئی اور ایبٹ آباد میں چین کا نہ تو کوئی ثقافتی مرکز موجود ہے اور نہ ہی سرکاری سرپرستی میں چینی زبان و ثقافت سیکھنے اور ایبٹ آباد سے مقامی طلبہ کے وفود کا چین کے ساتھ تبادلہ کیا جا رہا ہے حالانکہ چین اور ایبٹ آباد کے درمیان زمینی فاصلہ قریب چھ سو تیس کلومیٹر ہے اور اِس راستے کا بیشتر حصہ پُرپیچ دریا اور وادیوں سے گزرتے ہوئے پہاڑی سلسلوں کے حسین مناظر کی سیر کا مجموعہ ہے کہ چوبیس گھنٹے یا اِس سے زیادہ سفر کرنے کے باوجود بھی تھکاوٹ یا بوریت کا احساس نہیں ہوتا۔ترقیاتی عمل جہاں کہیں بھی ہو‘ وقتی طور پر کسی مسئلے کا حل نہیں ہونا چاہئے‘بدقسمتی سے ہمارے ہاں ترقی وقتی (فوری) اقدامات کی صورت ظاہر ہوتی ہے اور دن ڈھلنے کے ساتھ ترجیحات بھی تبدیل ہو جاتی ہیں۔ ’شاہراہئ قراقرم‘ اور ’ایبٹ آباد‘ کی (اوّل الذکر) اہمیت کا خاطرخواہ احساس کرتے ہوئے ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ ترقی کا عمل صرف ہی حال نہیں بلکہ مستقبل کو بھی مدنظر رکھتے ہوئے ترتیب و تشکیل دیا جائے۔