امریکہ اور اسکے اتحادیوں کا خطرناک رویہ

پرسوں واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق افغانستان کے دیہات کے باشندے خوش تھے کہ بڑے عرصے بعد ان کے علاقوں میں کوئی گولی نہیں چلی اور چوریاں، ڈاکے، قتل مقاتلے کم ہوگئے ہیں۔ پھر طالبان نے وعدہ کیا ہے وہ کسی بھی دہشت گرد تنظیم کو اپنی سرزمین بیرونی حملوں کیلئے استعمال نہیں کرنے دیں گے۔ وہ عالمی عزائم بھی نہیں رکھتے اور ان کی حربی طاقت کے پیش نظر کسی گروہ میں یہ دم خم نہیں کہ ان کی مرضی کے خلاف افغانستان کو دوسرے ممالک میں دہشت گردی کیلئے تربیت گاہ اور پناہ گاہ بناسکیں۔ انہیں وسیع عوامی حمایت بھی حاصل ہے۔چنانچہ افغانستان میں امن و استحکام کیلئے طالبان کی حکومت سے تعاون لازمی ہے۔ امن آئے گا تو اس کے بعد سب افغان گروہ باہمی مشاورت سے اپنے لیے کسی مناسب نظام حکومت پرمتفق ہوسکتے ہیں۔ لیکن یہ بعد کا مرحلہ ہے۔ اس وقت تک پہنچنے کیلئے دنیا کو طالبان سے رابطہ رکھنا اور تعاون کرنا ہوگا، اچھے تعلقات رکھنے ہوں گے اور مثالیت پسندی کے بجائے طالبان بارے حقیقت پسندی سے کام لینا ہوگا۔ امریکہ یاد رکھے کہ افغانستان میں کسی "ناپسندیدہ" حکومت کا ہونا کسی حکومت کے نہ ہونے سے بدرجہا افضل ہے۔ طالبان کو ڈھکے چھپے انداز میں دھمکیاں دینے کے بجائے اور ان کی طرف سے پیش رفت کا انتظار کیے بغیر دنیا ان کی طرف ہاتھ بڑھائے اور سیاسی، مالی اور معاشی تعاون شروع کرے۔طالبان اب تک نرمی، معافی اور برداشت دکھا رہے ہیں، دنیا کے ساتھ چلنے کی کوشش کررہے ہیں اور پوری دنیا سے کہہ رہے ہیں اپنے سفارت خانے کھول لیں تو انہیں مایوس نہیں کیا جانا چاہئے۔ ان سے میل جول بڑھا کر انہیں مزید قابل قبول پالیسیاں اپنانے پر آمادہ کیا جاسکتا ہے۔طالبان ترجمان کہتے ہیں امریکہ ماضی میں دشمن تھا۔ لیکن اب یہ باب بند ہو چکا ہے اور ہم نئی شروعات چاہتے ہیں۔ تاہم اگر آپ انہیں زچ کرنا چاہتے ہیں اور دیوار سے لگانا چاہتے ہیں تو یاد رکھیں کہیں آپ کی مثالیت پسندی اور پہلے طالبان کی جانب سے پیش رفت اور ان پر زیرِ دبا لانے کی خواہش انہیں مشتعل نہ کردے۔طالبان جدید نظام حکومت چلانے کیلئے دنیا کے تعاون کے محتاج ہیں۔ اس احتیاج کو ان کیلئے توہین نہ بنائیں ورنہ وہ ردعمل کا شکار ہوجائیں گے۔ طالبان ترجمان نے درست کہا امریکہ بڑا ملک ہے دل بھی بڑا رکھے۔ اعلی ظرف لوگ ضرورت مندوں کی مدد کرتے ہیں۔ وہ ان پر احسان جتاتے ہیں اور نہ ان کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔انہیں سوچنا چاہئے کہ طالبان آخر دم تک کیوں لڑتے رہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے مسلسل طالبان کو حکومت سازی اور تعمیرنو کی سرگرمیوں سے باہر رکھا تھا۔دسمبر 2001 میں نئی افغان حکومت کے قیام کیلئے بون کانفرنس میں طالبان کو مدعو نہیں کیا گیا۔ پھر 2002 میں بلائے گئے لویا جرگہ سے انہیں باہر رکھا گیا۔ 2003 میں آئینی مسودہ کی تیاری اور پھر 2004 میں لویا جرگہ میں اس کی منظوری کے عمل میں ابھی انہیں شریک نہیں کیا گیا۔ چنانچہ طاقت کے بندوبست سے اپنے مکمل اخراج کے بعد طالبان نے ردعمل میں جارحانہ حملے شروع کیے۔ انہوں نے معافی کے بدلے جنگ بندی کیلئے رابطے کیے لیکن امریکہ نہ مانا حالانکہ اس وقت وہ کمزور تھے اور ان سے رعایتیں لی جاسکتی تھیں۔ امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادی شمالی اتحاد کو مجبور کرتے تو طالبان بھی رعایتیں دینے کیلئے آمادہ ہوجاتے کیوں کہ نظام میں شمولیت کے بعد ان میں اعتدال و توازن آجاتا۔ یاد رکھیں طالبان سے تعمیری انگیجمنٹ ماضی میں بھی مفید ثابت ہوا ہے۔ مثلا فروری 2020 کے طالبان امریکہ معاہدے اور جاری بین الافغان مذاکرات کی راہ ہموار کرنے کیلئے طالبان، امریکہ اور افغان حکومت کو اپنے اپنے موقف سے پیچھے ہٹنا پڑا اور دوسرے فریق کو رعایتیں دینی پڑیں۔ پھر پندرہ اگست 2021 کو کابل پر طالبان کا قبضہ اور غیر ملکی افواج کا محفوظ انخلا امریکہ اور طالبان کے باہمی تعاون سے ہی ممکن ہو سکا۔ اشرف غنی کے فرار کی خبر کے بعد سیکورٹی فورسز غائب ہوگئیں تو مسلح جتھے شہر کی گلیوں میں پھرنے لگے اور لوٹ مار کی اطلاعات آنے لگیں۔فورا دوحہ میں امریکی سینئر کمانڈ کے کمانڈر جنرل میک کینزی سمیت سینئر امریکی فوجی رہنماں نے طالبان کے سیاسی ونگ کے سربراہ عبدالغنی برادر سے بات کی۔ برادر بولے ہمارے پاس اس سے نمٹنے کیلئے دو راستے ہیں امریکی فوج کابل کو محفوظ بنانے کی ذمہ داری لے لے ورنہ ہم یہ کرلیتے ہیں۔میکنزی نے برادر سے کہا کہ امریکہ کا مقصد صرف امریکی شہریوں، افغان اتحادیوں اور خطرے سے دوچار دیگر افراد کو نکالنا ہے اور یہ کہ امریکہ کو اس کیلئے کابل ائرپورٹ درکار ہے۔ فورا ًایک مفاہمت ہوگئی کہ امریکہ کے پاس اکتیس اگست تک کابل ائرپورٹ ہوگا جبکہ طالبان شہر کو کنٹرول کریں گے۔طالبان کے ترجمان نے ترمیم شدہ ہدایت جاری کردی کہ طالبان کا کابل پر آج قبضہ کرنے کا ارادہ نہیں تھا۔ لیکن اشرف غنی کے نکلنے سے اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ حکومت نے اپنی تمام وزارتیں چھوڑ دی ہیں۔ ملک کو افراتفری سے بچانے، لوگوں کے جان ومال کی حفاظت کرنے اور لازمی خدمات کی فراہمی کے لیے ہمیں شہر میں داخل ہونا پڑے گا۔" کابل کے محاذ پر طالبان کے کمانڈر محمد ناصر حقانی کے فون پر یہ پیغام آیا تو تھوڑی ہی دیر میں جنگجو کابل پر قبضہ کرچکے تھے۔امریکہ اور اس کے اتحادی بھی دودھ کے دھلے نہیں ہیں۔ انہوں نے بھی مختلف ملکوں میں ڈیزی کٹر بموں، کارپٹ بمباری اور ڈرون حملوں سے ان گنت معصوموں کو مارا ہے‘ آج یہ لوگ جمہوریت، بنیادی حقوق اور خواتین آزادی کے خودساختہ علمبردار بنے پھرتے ہیں اور طالبان حکومت پر خوامخوا ان کے ماضی کی وجہ سے من گھڑت الزام تراشیاں اور تنقید کرتے رہتے ہیں۔ حالانکہ خود امریکہ اور مغربی ممالک میں سفید فام نسل پرستی، اسلامو فوبیا اور سیاہ فاموں سے نفرت خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔