چار فریقی سکیورٹی ڈائیلاگ

عالمی سطح پر چار ممالک کے درمیان بننے والے کواڈ اتحاد میں امریکہ‘ آسٹریلیا‘ بھارت اور جاپان شامل ہیں جن کا پہلا اجلاس ”ورچوئل‘‘تھا۔ ان ملکوں کے سربراہان نے مارچ میں رابطہ قائم کیا اور ایشیا ء کے ملکوں کے لئے دوہزاربیس کے اواخر تک ایک ارب کووڈ ویکسین بھیجنے کے منصوبے میں تعاون پر اِتفاق کیا تھا۔ کواڈ کا پہلا ’اِن پرسن‘ اجلاس واشنگٹن ڈی سی میں ہوا اُور یہ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے کہ جب رواں ہفتے کے اوائل میں نئے بین الاقوامی سکیورٹی معاہدے نے تنازع کھڑا کیا۔ متنازع آکس معاہدے میں امریکہ‘ برطانیہ اور آسٹریلیا شامل ہیں۔ مذکورہ معاہدے کے تحت آسٹریلیا کو پہلی بار امریکہ کی جوہری ایندھن سے چلنے والی آبدوز کی ٹیکنالوجی تک رسائی مل جائے گی۔ تو کیا آکس معاہدے سے کواڈ پر کوئی فرق پڑے گا؟ ان ممالک کے سربراہان نے اجلاس کے دوران چین کے براہ راست تذکرے سے اجتناب کیا ہے لیکن خیال ہے کہ اس تعاون کی کوششوں کا اصل مقصد انڈو پیسیفک خطے میں چین کے اثر و رسوخ کو کم کرنا ہے۔ بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کے ذہن میں چین ضرور ہو گا جب وہ کواڈ کے دیگر رہنماؤں سے ملاقات کریں گے۔ بھارت اس گروہ میں وہ واحد ملک ہے جس کی سرحد چین کے ساتھ ہے۔ کئی مقامات پر اس سرحد پر جھڑپیں ہو چکی ہیں۔ گذشتہ سال دونوں ملکوں کے فوجیوں کی ایک لڑائی میں ہلاکتیں بھی ہوئی تھیں۔ حالیہ برسوں میں بھارت بین الاقوامی اجلاسوں میں بارہا شرکت کرتے پایا گیا ہے اور یہاں اس کی شمولیت کو اہم سمجھا جاتا ہے۔ بھارت کچھ ایسے اجلاسوں میں بھی موجود ہوتا ہے جہاں چین بحیثیت رکن شرکت کرتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ آکس اور کواڈ دونوں کے وجود سے بھارت کو فائدہ پہنچے گا۔ کواڈ کے اجلاس سے نئی دہلی دیگر تین رکن ممالک کے ساتھ اپنی تشویش کا اظہار کر سکے گا اور یہ تمام ملک اس پر ایک مشتر کہ حکمت عملی ترتیب دے سکیں گے۔ مذکورہ اجلاس میں رکن ممالک خطے میں چین کے بڑھتے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کے لئے حکمت عملی بنا سکتے ہیں۔ اجلاس میں طویل مدتی تعاون کی بنیاد ڈالی جا سکتی ہے جس میں پیچیدہ ٹیکنالوجی‘ فوجی تعاون اور خطے میں انفراسٹرکچر کی تعمیر کے لئے مالی وسائل پر کام ہو سکے گا۔ مذکورہ دونوں فورم‘ آکس اور کواڈ‘ خطے میں ایک دوسرے کی حمایت کریں گے اور انڈو پیسیفک خطے میں علاقائی سکیورٹی کے معاملے میں رکن ممالک ایک دوسرے کی مدد کریں گے۔ خیال ہے کہ کواڈ ماحولیاتی تبدیلی‘ سائبر سکیورٹی‘ انفراسٹرکچر کی تعمیر اور نئی ٹیکنالوجی جیسے فائیو جی انفراسٹرکچر پر معلومات کی شیئرنگ جیسے امور پر تعاون کا اعلان کرے گا۔ کواڈ نے پہلے ہی ٹھوس نتائج کا اعلان کیا ہے، جیسا کہ کووڈ ویکسین کی پیداوار اور تقسیم۔ بھارت ایسے نتائج سے مشکل میں نہیں پڑے گا کیونکہ یہ چین کے لئے زیادہ اشتعال انگیز نہیں لیکن کواڈ کے فریم ورک میں بھارت کے کچھ مسائل غیر حل شدہ ہی رہیں گے۔ بھارت کو درپیش بڑے چیلنجز میں سے ایک بحیرہئ ہند اور چین کے ساتھ سرحد کا ہے۔ چین کی جانب سے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں سرمایہ کاری کی جا رہی ہے جس سے بھارت خوش نہیں۔ یہ منصوبہ چین کے ”بیلٹ اینڈ روڈ انشی ایٹو (BRI) کا حصہ ہے۔ اب بیجنگ افغانستان میں اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہا ہے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ موجودہ صورتحال میں جبکہ بھارت کو اِس سے اُمیدیں بھی ہیں تو کیا کواڈ بھارت کی مدد کر سکے گا تاکہ اس کے لئے سکیورٹی کی مشکلات حل ہو سکیں گی؟ امکان یہی کہ بھارت نے امریکہ سے مطالبہ کیا ہوگا کہ وہ طالبان کو پابند کرے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں سرگرم تنظیمیں جن کی جڑیں مبینہ طور پر افغانستان میں ہیں اُور اِن دہشت گرد تنظیموں کے مسلح گروہوں کو افغانستان کی سرزمین استعمال نہ کرنے کی اجازت دی جائے‘ جس سے بھارت پر حملوں کی منصوبہ بندی کی جا سکتی ہے۔ بھارت افغانستان سے متعلق امریکہ کی پالیسی میں اپنے مفادات کا تحفظ چاہتا ہے جو بظاہر ممکن نہیں لیکن امریکہ کے لئے بھارت کے مفادات اہم ہیں اُور وہ چین کے خلاف بھارت کو استعمال کرنے کے لئے اِس کی ہر ممکن مدد کرتا آیا ہے۔ امریکہ کی بھارت دوستی اُور سرمایہ کاری سے پاکستان کو شدید تحفظات ہیں کیونکہ اِس سے خطے میں طاقت کا توازن جو پہلے ہی بگڑا ہوا تھا مزید عدم توازن سے دوچار ہو جائے گا۔ چار ممالک کے اجلاس میں شاید بھارت کے ذاتی مسائل پر بات نہ ہو یا اُن کے حل سامنے نہ آئیں لیکن اس سے مودی اور جو بائیڈن کو افغانستان میں تبدیلی سے پیدا ہونے والی صورتحال سے متعلق نئی منصوبہ بندی کرنے کا موقع ضرور ملا ہے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: ڈاکٹر اصغر فاروق۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)