معیشت کو دو ہی طریقوں سے سہارا دیا جا سکتا ہے۔ پہلے اقدام کے طور پرملک میں سیاسی و معاشی استحکام کا تحفظ کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے اندرونی و بیرونی سرمایہ کار راغب ہوتے ہیں کیونکہ حکومت کی معاشی پالیسیوں میں تسلسل ہوتا ہے‘ دوسرا طریقہ حکومت کی جانب سے آسان شرائط اور کم شرح سود پر قرضوں کی فراہمی سے معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں مدد دی جاتی ہے اور جب ہم قرضوں کی بات کرتے ہیں تو اِن سے مراد ’کم مالیت کے قرضے ہوتے ہیں اور اِس ’مائیکرو فنانسنگ‘ کی بدولت خود روزگار سے لیکر کسی کاروبار کو وسیع کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں‘پاکستان کی معیشت جس مشکل (بحرانی) دور سے گزر رہی ہے اُس سے متعلق تمام تر پیشگوئیاں زیادہ خوفناک منظرنامے کی عکاسی کر رہی ہیں‘رواں ماہ کے اوائل میں اسٹیٹ بینک نے شرح نمو کو سترہ فیصد سے بڑھا کر بیس فیصد کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ آئندہ‘چار اپریل کو جب زری پالیسی کمیٹی کا دوبارہ اجلاس ہوگا تو اس میں مزید اضافے کا واضح امکان ہے تاہم یہ معیشت میں مالی طور پر شامل رسمی نصف کے بارے میں اقدامات ہیں معیشت کا دوسرا نصف حصہ شرح سود سے الگ چھوٹے قرضہ جات (مائیکرو کریڈٹ) کا ہے اور جب اِس شعبے میں مالیاتی اداروں کی کارکردگی کا جائزہ لیا جاتا ہے تو ایک ایسی صورتحال نظر آتی ہے جس میں بڑے قرضے تو دیئے جاتے ہیں لیکن چھوٹے کاروباری قرضوں بآسانی و باسہولت نہیں دیئے جاتے‘ موجودہ انتظام میں چھوٹے قرضہ جات بنیادی طور پر زراعت‘ لائیو سٹاک‘ انٹرپرائز اور سولرائزیشن کے لئے دیئے جا رہے ہیں۔ قریب نوے کروڑ (895.5 ملین) روپے کے قرضوں میں دو تہائی قرضے خواتین کو جبکہ زیادہ تر ’انٹرپرائز سیکٹر‘ کو دیئے گئے ہیں جبکہ یکساں اور اہم ضرورت زرعی شعبے کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لئے قرضہ جات دینے کی ہے۔ ملک میں خوردنی اجناس کی مہنگائی کا پائیدار حل بھی اِسی میں چھپا ہوا ہے کہ زرعی شعبے کو ترجیحی بنیاد پر قرضے دیئے جائیں۔کمرشل بینکوں سے قرض لینے کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ یہ بینک اپنے منافع کی شرح بڑھا چڑھا کر وصول کرتے ہیں اور اُس وقت تک قرض نہیں دیتے جب تک اِن قرضوں کی واپسی کی اِنہیں ایک سو فیصد سے زیادہ اُمید نہ ہو۔ جب ہم رعایتی بنیادوں پر سرکاری اسکیموں اور عطیہ دہندگان کی مالی اعانت سے چلنے والے پروگراموں کا جائزہ لیتے ہیں تو فراہم کی جانے والی خدمات میں مائیکرو کریڈٹ‘ مائیکرو انشورنس اور کمیونٹی کے زیر انتظام مالی خدمات شامل ہیں۔ پالیسی ریٹ میں بے تحاشہ اضافے کے بعد اِس سلسلے کو بھی اپنے صارفین سے وصول کئے جانے والے مارک اپ کو بڑھانا پڑتا ہے اور جب کسی شخص کو ایک مقررہ شرح سود پر قرض دیا جائے اور قرض دینے کے بعد شرح سود بڑھا دی جائے تو وہ کوئی بھی شعبہ بھی مشکلات و بحران سے دوچار ہو جائے گا کورونا وباء سے آئے بحران کے دوران‘ قرض دینے کا عمل رک گیا تھا مالیاتی اداروں نے قرض دینے سے ہاتھ روک لیا جس کی وجہ سے یہ پورٹ فولیو سکڑ گیا اور قرض لینے والوں کی تعداد میں غیرمعمولی کمی آئی۔ انتہائی غیر یقینی معاشی صورتحال پر مبنی موجودہ کاروباری ماحول میں جب شرح سود بڑھایا جاتا ہے تو اِس کا متوقع رد عمل یہ ہوتا ہے کہ قرض کم دیا اور لیا جاتا ہے۔ قرض لیتے وقت شرح سود جو پہلے اکتیس فیصد تھی اب مزید بڑھ کر چھتیس فیصد ہونے کا امکان ہے اُور ظاہر ہے کہ جب ایک طرف معاشی مشکلات ہوں اور دوسری طرف چھتیس فیصد سود بھی ادا کرنا پڑے تو قرض سے شروع کئے گئے کاروبار میں اخراجات اور منافع متوازن نہیں ہو سکتے‘ روایتی غیر رسمی ذرائع کے مقابلے میں اب بھی کم بڑھتی ہوئی شرح سے قرض لینے کی حوصلہ شکنی ہونی چاہئے لیکن بدقسمتی سے سولرائزیشن کے علاؤہ اس کا امکان نظر نہیں آتا جو پینلز‘ بیٹریوں اور دیگر آلات کی درآمد پر عائد پابندیوں کے علاؤہ مقامی پیداواری صلاحیت کو فروغ دینے میں ناکامی کی وجہ سے سست روی کا شکار ہے‘ زیادہ فرنٹ لوڈڈ اخراجات اب مائیکرو فنانس کے لئے مقرر کردہ زیادہ سے زیادہ حد سے تجاوز کر گئے ہیں۔ ماضی میں قرض لے کر نجی سکول یا میڈیکل سٹور یا کریانہ سٹور شروع کیا جا سکتا تھا لیکن اب زیادہ شرح سود پر قرض لینے کی وجہ سے کوئی بھی کاروبار وسیع اور بہتر نہیں بنایا جا سکتا بالخصوص ایک ایسے ماحول میں جبکہ شرح سود میں اضافہ بھی ہو رہا ہو۔خواتین کو ملنے والے چھوٹے قرضوں میں ’بیوٹی پارلر‘ کے لئے حاصل کردہ قرضہ جات منافع بخش ثابت ہوئے ہیں۔ اِسی طرح مال مویشیوں کی افزائش کے لئے حاصل کئے جانے والے چھوٹے قرض بھی منافع بخش رہے ہیں اور اِن دونوں شعبوں کے لئے مالیاتی ادارے مزید قرض دینا چاہتے ہیں لیکن اِنہیں لینے سے انکار کیا جاتا ہے۔ زیادہ تر خواتین اپنے کاروبار گھر کے کسی حصے ہی میں شروع کرتی ہیں اور گھر کے سبھی افراد اُن کا ہاتھ بٹا رہے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے اُن کے کاروبار کی لاگت کم ہوتی ہے جو کاروباری کامیابی کا پہلا اصول ہے اِس لئے اگر خواتین کو غیرروایتی شعبوں میں ہنرمند بنا کر چھوٹے قرضے دیئے جائیں تو وہ روزگار کے مواقع پیدا کرنے میں کلیدی کردار ادا کر سکتی ہیں۔ اکثر ہنر مند خواتین کڑھائی کا سامان خریدنے کیلئے قرض لیتی ہیں قرض لینے والے مرد ہیئر ڈریسنگ‘ موبائل فون اور کریانہ سٹورز کے لئے قرض لیتے ہیں‘ خواتین اور مردوں کے خود روزگار سے متعلق یہ دونوں شعبے روایتی ہیں جبکہ غیرروایتی شعبوں میں سرمایہ کاری کے لئے ہنرمندی اور آگاہی ضروری ہے۔ پاکستان دنیا کے اُن چند خوش قسمت ممالک میں شامل ہے جہاں نوجوان افرادی قوت کی کمی نہیں اور یہ افرادی قوت ذہین و خود دار بھی ہے۔ معاشی استحکام اور معاشی سرگرمیوں میں اضافے کے لئے ’چھوٹے قرضہ جات‘ کی فراہمی کا قومی پروگرام شروع ہونا چاہئے‘ جس میں زرعی شعبے (بشمول لائیو سٹاک) کیلئے قرضہ جات ترجیح ہونی چاہئے‘پاکستان کو ’سیاسی استحکام‘ کے ساتھ ’زرعی انقلاب‘ کی ضرورت ہے اُور اِن دونوں اہداف کا حصول مشکل (ناممکن) نہیں ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر پرویز طاہر۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)