اگر ایک شہر لمبی جھیلوں اورجنگلوں اور ان میں قلانچیں بھرتے ہرنوں سے مزین ہو اور پھر اس شہر میں آپ کی اکلوتی بیٹی بھی قیام پذیر ہو تو وہ شہرآپ کے دل میں جانہ کرے تو اور کیا کرے…… ہمہ وقت اس کی مہک سے ایک ابو مہکتے نہ رہیں تو اور کیا کریں‘ آرلینڈو میرے لئے ایک ایسا شہر ہے‘اگرچہ اس کی وجہ شہرت مشہور عالم ڈزنی لینڈ کے حیرت کدے اوراس کی جھیلوں میں پائے جانے والے مگرمچھ بھی ہیں لیکن میرے لئے وہ عینی، بلال اور شاندار ترین نواسے نوفل کی موجودگی سے عبارت ہے‘ عینی ایک سرکاری ہسپتال میں سابق امریکی فوجیوں، عمررسیدہ بوڑھوں اوربچوں کے دکھ درد کا مداوا کرتی ہے اوربلال انجینئرنگ اور وکالت کے پیشے میں مگن ہے‘ نوفل میاں کے بارے میں مشہور کردیاگیا ہے کہ وہ اپنے نانا جان پرگیا ہے کیونکہ وہ نہ صرف پڑھائی میں ممتاز ہے جو کہ ناناجان تو ہرگز نہیں تھے بلکہ کتابوں کو دیمک کی مانند چاٹتا ہے جو کہ ناناجان کی بیماری بھی رہی ہے‘موصوف ابھی آٹھ برس کے ہیں اورایک لائبریری کے مالک ہیں۔ کتابوں کے مشہور سٹور”بارنزاینڈ نوبلز“ میں گھس جائے تونہایت بے چارگی اور پیار سے کہے گا نانا آپ پلیز مجھے یہ چار پانچ کتابیں تحفے کے طورپر پیش کردیں۔ ناناجان اس درخواست کا رخ نانی جان کی جانب موڑ دیتے ہیں کہ ڈالروں کی پوٹلی انہی کے پاس ہے۔ آرلینڈو میں پاکستانی کثرت سے نہیں ہیں۔ جمعہ کے روزبلال مجھے نماز کیلئے مقامی مسجد میں لے گیا اور جی اس لئے بھی خوش ہوا کہ اس مسجد سے ملحقہ والی بال کورٹ اورسکواش کورٹ کے علاوہ ایک ریسٹورنٹ اورکیفے ٹیریا بھی ہے۔ ظاہر ہے امریکہ میں جمعہ کے روز آدھی چھٹی نہیں ہوتی اور جتنے لوگ آتے ہیں وہ اپنے کام اور تنخواہ کا حرج کرکے آتے ہیں۔ مجھے خوشی ہوئی کہ نوفل بھی نماز کی ادائیگی میں باقاعدہ ہے‘ ہفتے میں دو روزاسکی فلسطینی”ٹیچر“ اسے قرآن پاک اور اسلامی تاریخ پڑھانے کیلئے آتی ہے۔ اس دوران میں بھی ان کے آس پاس منڈلاتا رہتاتھا کہ فلسطینی خاتون کے عربی لہجے میں ایک عجیب سافسوں تھاجو آپ کے احساسات کی رگوں میں اتر کر آپ کو سرشار کر دیتا تھا‘ بہت جی چاہ رہاتھا کہ نوفل کے ہمراہ سپارہ کھول کر بیٹھ جاؤں اور قرآن کے حرف اسی طور ادا کروں جیسے کہ وہ حجاب پوش فلسطینی خاتون کرتی تھی۔امریکہ میں ”میکڈانلڈ“ برگر چین کی جانب سے ہسپتالوں سے ملحقہ نہایت آرام دہ رہائش گاہیں تعمیر کررکھی ہیں جہاں مریضوں کے لواحقین مفت قیام کرسکتے ہیں‘ عینی نہایت باقاعدگی سے مریضوں کے رشتے داروں کے لئے خوراک کا اہتمام کرتی رہتی ہے اور وہ ذاتی طورپر ہسپتال کی کمرتوڑ ڈیوٹی کے بعد اپنے کچن میں درجنوں ناشتے تیارکرکے ان امریکی مجبورلوگوں تک پہنچاتی ہے۔ اس دوران ہم ایک شب کیلئے ”سوانا“ کے تاریخی اور سوتے جاگتے شہر میں بھی گئے۔ میں نے اس شہر یا قصبے کے بارے میں ایک ناول پڑھاتھا اس لئے مجھے اشتیاق تھا۔ لیکن گرمی کی شدت ایسی تھی کہ ہم تو پگھل گئے‘یہ شہر اگرچہ باغوں، سرسبز گوشوں کا ایک خاموش شہر ہے جسکے ساحل کیساتھ ساتھ ایک دیدہ زیب بازار ہے لیکن دھوپ کی شدت ایسی تھی کہ ہم بوکھلائے ہوئے گھومتے رہے ہمیں یہ بھی خبر ملی کہ ٹام ہینکس کی بے مثال فلم”فارسٹ گمپ“ کی شوٹنگ یہاں ہوئی تھی اور یہاں اس پارک میں وہ تاریخی بنچ ہواکرتا تھا جس پر بیٹھ کر ٹام ہینکس بس کاانتظار کرتاتھاآرلینڈو واپسی پرہم کچھ دیر جارجیا کے شہر جیکسن ول میں ٹھہرے اور مجھے وہاں بے مثل نابینا گائک رے چارنر یادآگیا۔ میں اس کی درد بھری آواز کا مداح ہوں‘ اسے جارجیا کے سفید فاموں نے جارجیا سے نکال دیا کہ وہ نسلی امتیاز کے خلاف تھااورپھر ایک ایسادن آیا کہ جارجیا کی پارلیمنٹ نے اس نابینا گائک سے معافی مانگی اور اس کے ایک گیت”مائی بیوٹی فل جارجیا“ کو ریاست جارجیا کا قومی نغمہ قراردیالیکن کیا ہم ایک گیت ”مائی بیوٹی فل پاکستان“ نہیں گاسکتے؟