جلتی پر تیل

روس کے صدرنے خبردار کیا ہے کہ اگریوکرین کو امریکہ کی جانب سے کلسٹر بم فراہم کیے جاتے ہیں تو روس کے پاس بھی ان کا کافی ذخیرہ ہے اور وہ انہیں استعمال کا حق محفوظ رکھتا ہے۔صدر پیوٹن نے یہ بھی کہا ہے کہ روس نے اب تک یوکرین کے ساتھ جنگ میں کلسٹر بموں کا استعمال نہیں کیا، دوسری طرف غیر جانبدار ذرائع سے یہ خبریں بھی آرہی ہیں کہ پہلے ہی روس یوکرین جنگ میں کلسٹر بم استعمال ہورہے ہیں۔تاہم اس کے قوی شواہد ابھی تک سامنے نہیں آئے، اب جبکہ یوکرین کو کلسٹر بموں کی پہلی کھیپ موصول ہوچکی ہے تو دونوں طرف سے مستقبل قریب میں اس مہلک ہتھیار کا استعمال سر عام شروع ہوجائیگا۔ نیٹو ممالک کے دانست میں یوکرین کے پاس گولہ بارود کی کمی کو اس ہتھیار سے پورا کیا جائیگا۔ اس وقت دیکھا جائے تو یوکرین روس تنازعے کو ختم کرنے کی بجائے امریکہ اور نیٹو ممالک کی توجہ اس تنازعے کوطول دینے اور آگ پر تیل ڈالنے جیسے اقدامات پر مرکوز ہے ۔ یوکرین کوامریکہ کی طرف سے کلسٹر بموں کی فراہمی وہ تیل ہے جو اس آگ میںتیزی لائے گا اور ظاہر ہے کہ اس طرح دونوں طرف جانی نقصان میںبے تحاشا اضافہ ہوگا۔ جو خون بہے گا ہو یقینا روسی اور یوکرینی فو ج اور عام شہریوں کا ہوگا۔ امریکہ اور نیٹو ممالک کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑیگا۔جہاں تک کلسٹر بموں کا تعلق ہے تو ائرلینڈ کے شہر ڈبلن میں 2008 میں منظور ہونے والے کنونشن کے تحت کلسٹر بموں کی تیاری، ذخیرہ کرنے، منتقلی اور استعمال پر پابندی عائد ہے اور دنیا کے 100 سے زائد ممالک اس کنونشن پر دستخط کر چکے ہیں۔کلسٹر بم، بموں کی ایک ایسی قسم ہے جس کے اندر چھوٹے چھوٹے مزید بم ہوتے ہیں، اس بم کے استعمال سے اس سے نکلنے والے مزید چھوٹے بم وسیع علاقے میں جانی و مالی نقصان کا سبب بنتے ہیں۔ایک کلسٹر بم کے اندر 2000 ہزار تک چھوٹے بم موجود ہو سکتے ہیں۔کلسٹر بموں کا استعمال 1940 کی دہائی میں شروع ہوا ، جوہری بم کے استعمال کی طرح کلسٹر بموں کے بے تحاشا استعمال کا سہرا بھی امریکہ کے سر ہے اور ا س نے جہاں بھی موقع ملا اس تباہ کن ہتھیار کا استعمال کیا۔ امریکی فوج نے 2003 میں عراق میں وسیع پیمانے پر کلسٹر بموں کا استعمال کیا تھا جس کی وجہ سے دس لاکھ سے زائد عراقی عام شہری متاثر ہوئے تھے۔اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق کلسٹر بموں سے متاثر ہونے والوں میں 70 فیصد بچے ہوتے ہیں۔مئی 2008 میں آئرلینڈ میں کلسٹر بموں پر ہونے والے کنویشن کی توثیق کرنے والے ممالک پر اس بم کے استعمال کی پابندی عائد ہے جب کہ 2010 سے اس پر پابندی انٹرنیشنل قوانین کا حصہ ہے اور اب تک 120 ممالک اس کنونشن میں شامل ہیں۔اس کی توثیق کرنے والے ممالک میں نہ امریکہ شامل ہے اور نہ روس اور یوکرین۔ یوں ان کیلئے میدان کھلا ہے ۔کلسٹر بم جو کہ بین الاقوامی قواعد کے مطابق ممنوعہ اسلحے میں شامل ہیں اگر روس یوکرین جنگ میں کھلے عام استعمال ہونے لگے تو ا س سے کیمیائی اور چھوٹے جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی طرف بات جاسکتی ہے جو عالمی امن کیلئے بہت بڑا خطرہ ہے ۔انسانی حقوق اور ہمدردی کی علمبردار بین الاقوامی تنظیموں کی طرف سے کلسٹر بموں کے استعمال کی مخالفت توکی جارہی ہے تاہم لگتا نہیں کہ روس یا امریکہ سمیت نیٹو ممالک اس وقت انسانی حقوق یا ہمدردی کی لیکچر سننے کے موڈ میں ہیں اور کلسٹر بموں کا استعمال اب یوکرین جنگ میں ایک فیصلہ کن کردار ادا کریگا جس کا خمیازہ جنگ میں مصروف فوجیوں کے ساتھ عام شہریوں کو بھگتنا پڑ سکتا ہے ۔ مبصرین کے مطابق امریکی صدر جوبائیڈن کی جانب سے یوکرین کو کلسٹر بموں کی فراہمی کا فیصلہ نہ صرف یوکر ین کے محاذ پر روس کے ہاتھوں امریکی شکست کی علامت ہے بلکہ واشنگٹن کی جانب سے تیسری عالمی جنگ کی جانب پیش قدمی بھی ثابت ہوسکتی ہے۔اس سے قبل امریکی صدر جوبائیڈن رسمی طور پر روس کے خلاف حملوں میں اپنی شکست تسلیم کرتے ہوئے روسی فوج کی برتری کو تسلیم کر چکا ہے اوریہی کلسٹر بموں کی فراہمی کی ایک وجہ ہے۔ تاہم روس کو شکست سے دوچار کرنے کی یہ مہم عالمی برادری کوکس قدر مہنگی پڑ سکتی ہے اس کا اندازہ عالمی قواعد و ضوابط کو نظر انداز کرنے کی روش میں اضافے کے بعد ہی ہوگا جس کی ابتداءامریکہ کر چکا ہے ۔