جواب طلب سوال

صحت کارڈ پلس کے تحت علاج کی سہولت فراہم کرنے والے ہسپتالوں کی دوبارہ پڑتال کا عندیہ دیا جا رہا ہے یہ فیصلہ انسداد بدعنوانی کی کوششوں کا حصہ قرار دیا جا رہا ہے‘ اس بابت بتایا جارہاہے کہ اینٹی کرپشن کو عوام کی جانب سے شکایات موصول ہوئیں جن پر کاروائی کرتے ہوئے تمام ہسپتالوں کی ری اسسمنٹ کا حکم جاری کیا گیا ہے‘ دریں اثناء اس مقصد کیلئے خصوصی ٹیمیں بھی تشکیل دے دی گئی ہیں صحت کارڈ کے تحت علاج کی سہولیات کیساتھ ماضی قریب میں سرکاری ہسپتالوں میں صرف ایک پرچی پر تمام سہولیات کی فراہمی جیسا ماحول پھر سے دکھائی دیا جانے لگا اب کی بار اس میں سرکاری کے ساتھ نجی ہسپتال بھی شامل ہوگئے‘ صحت کارڈ کے تحت علاج کی سہولیات کو ہر سطح پر سراہا بھی گیا اور ساتھ ہی وقت کی ضروریات کے مطابق سروسز کے حوالے سے تجاویز اور سفارشات بھی آنے لگیں‘ صحت کارڈ کے تحت علاج کیلئے پیش آنے والی مشکلات بھی سامنے آئیں خصوصاً بعض نجی ہسپتالوں میں کیش ادائیگی کرنے والوں اور صحت کارڈ کے تحت سروسز حاصل کرنے والوں کے درمیان امتیاز بھی نوٹ ہوا‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ یکے بعد دیگرے برسراقتدار آنے والی ہر صوبائی حکومت نے عوام کو علاج کی سہولیات فراہم کرنے کو اپنی ترجیحات کاحصہ قرار دیا کم اور زیادہ کے فرق سے ہر حکومت اس حوالے سے اقدامات اٹھاتی بھی رہی ہے‘دوسری جانب اس برسرزمین حقیقت سے چشم پوشی بھی ممکن نہیں کہ علاج کے حوالے سے عوام کی مشکلات کا گراف وقت کیساتھ بڑھا ضرور ہے کم نہیں ہوا‘ اس میں سرکاری علاج گاہوں کی حد تک مریضوں کی تعداد میں اضافہ اور اس کے مقابلے میں وسائل کی کمی بھی ایک فیکٹر ضرور ہے تاہم چیک اینڈ بیلنس کیلئے محفوظ نظام  نہ ہونے کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا‘ چشم پوشی اس حقیقت سے بھی ممکن نہیں کہ حکومتی اقدامات اور ان کے عملی نتائج کے درمیان طویل فاصلے موجود ہیں کہ جن کے باعث عوام کو ریلیف کا کوئی احساس نہیں ہو پاتا الٹا مشکلات میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے‘ اصلاحات کے حوالے سے درجنوں اقدامات اور اعلانات کے باوجود چھوٹے بچوں کے ہسپتال میں زائد المعیاد ادویات کا استعمال ایک سنگین صورتحال کی عکاسی کرتا ہے‘ ضم اضلاع  کے ہسپتالوں سے متعلق  ٹاسک فورس کی رپورٹ متقاضی ہے اصلاح احوال کی‘غریب لوگوں کا قرض اٹھا کر نجی علاج گاہوں سے علاج کیلئے رجوع کرنا بھی سوالیہ نشان ہے‘سرکاری ہسپتالوں سے تجویز ٹیسٹ کیلئے مریضوں کا پرائیویٹ اداروں کو جانا بھی جواب طلب ہے وقت کا تقاضہ ہے کہ اب سرکاری اجلاسوں میں پیش ہونے والی سب اچھا اور مثالی خدمات کی رپورٹس پر اکتفا کی روش ترک کردی جائے۔