2025ء کے آغاز کیساتھ ہی یکم جولائی کو شروع ہونے والے اگلے مالی سال کے بجٹ کی تیاریاں بھی شروع ہورہی ہیں‘ وفاقی وزارت خزانہ نے عندیہ دیا ہے کہ سال2025-26ء کیلئے میزانیہ جون کے پہلے ہفتے میں پیش ہوگا‘ اس ضمن میں بجٹ سرکلر جاری کردیاگیا ہے‘بجٹ کے اہداف اور دستاویزات کی منظوری وفاقی کابینہ سے لی جائیگی‘ اگلے مالی سال کا بجٹ ایک ایسے وقت میں پیش ہونے جارہا ہے جب ملک میں معیشت کو سنگین چیلنجوں کا سامنا ہے‘ اکانومی کھربوں روپے کے بیرونی قرضوں تلے دبی ہوئی ہے جبکہ اندرونی قرضے اپنی جگہ ہیں‘ گردشی قرضوں کا بڑھتا والیوم فنانشل منیجرز کیلئے لمحہ فکریہ ہے‘قرضہ دینے والوں کی شرائط پر عملدرآمد مجبوری بن چکا ہے جس کا ذکر وزیراعظم شہبازشریف بھی گزشتہ روز ایک تقریب میں کرچکے ہیں‘ قرضے دینے والوں کی کڑی شرائط کا یہ عالم ہے کہ حکومت بڑھتے یوٹیلٹی بلوں کے حجم سے پریشان صارفین کو بجلی کی قیمتوں میں ریلیف دینے کی خواہش کے باوجود عالمی مالیاتی ادارے کی جانب دیکھنے پر مجبور ہے‘ آئی ایم ایف ریونیو کیلئے اہداف سے متعلق شرائط پر عملدرآمد یقینی بنانے کی بات کرتا ہے جس میں عوام کیلئے ریلیف دینے پر ان اہداف تک پہنچنا مشکل ہوسکتا ہے‘ ملک کی معیشت کو درپیش سنگین چیلنجوں اور قرض دینے والوں کی شرائط پر عملدرآمد کا سارا لوڈ غریب عوام کو برداشت کرنا پڑ رہاہے‘ قومی میزانیہ ایسے وقت میں پیش ہونے جارہا ہے جب ایک طرف ضرورت ملک کی معیشت کو اپنے قدموں پر کھڑا کرنے اور قرضوں کے گرداب سے نکالنے کی ہے تو دوسری جانب گرانی کے لوڈ سے پریشان عوام کو ریلیف دینے کیلئے حکمت عملی کی ہے اس سب کیساتھ قومی بجٹ کی تیاری ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب ملک کا سیاسی منظرنامہ شدید گرما گرمی کا شکار ہے‘ ایسے میں ضرورت سیاسی استحکام کی ہے جبکہ معمول کا حصہ قرار دیئے جانے والے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اختلافات کو بھی حد اعتدال میں رکھنے کی ہے‘ پیش نظر رکھنا ہوگا کہ آنے والے بجٹ میں عوام کو ریلیف دینے کے لئے موثر اقدامات کی سخت ضرورت ہے۔
یونیورسٹیوں کی مشکلات؟
گورنر خیبرپختونخوا نے21سرکاری یونیورسٹیوں کی سینٹ‘ سینڈیکیٹ اور سلیکشن بورڈز کیلئے76 ممبران کی نامزدگی کردی‘دوسری جانب صوبے کی حکومت نے گورنر کے اقدام کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا‘ کون درست اور کون غلط اعلامیہ غیر قانونی تھا یا اس کو مسترد کرنا غلط‘ اس سب کو قاعدے قانون کی نظر سے دیکھنا ہوگا‘ سردست ضرورت صوبے کی متعدد سرکاری یونیورسٹیوں کو شدید مالی مشکلات سے نکالنے کی ہے جس کیلئے فوری اقدامات اور فنڈز ریلیز کرنے کیساتھ ضرورت مسائل کے مستقل حل کی ہے جس کیلئے سنجیدہ کوششیں ناگزیر ہیں۔