انسانیت شرماگئی غیرت کے نام پر قتل مقاتلے لمحہ فکریہ

 ہم اکثر کہتے رہے ہےں کہ غےرت کے نام پر کسی کو بھی مارنے کی ہمار ے ہاں باقاعدہ پلاننگ کی جاتی ہے کورٹ مےرج کرنےوالے ےا گھر سے بھاگ جانے والے جوڑے کو سبق سکھانے اور اس کی آڑ مےں خود کو تسکےن پہنچانے کےلئے باقاعدہ ڈرامہ رچاےا جاتا ہے اس ڈرامے کی کامےابی کےلئے ڈرامہ شروع ہونے سے قبل بھی باقاعدہ سکرپٹ کی تقسےم کی طرح گھرانے مےں اہم ترےن افراد کو سمجھا دےا جاتا ہے انہےں ان کی ذمہ دارےوں سے آگاہ کردےا جاتاہے تاکہ اس ڈرامے کا جو مرکزی کردار ہوتے ہےں (لڑکا ےا لڑکی) جو گھر سے بھاگ کر شادی رچاتے ہےںےا پھر قابل اعتراض حالت مےں پکڑے جاتے ہےں‘ وہ کسی بھی صورت اپنے گھر والوں ¾ خاندان والوں کی چال کو نہ سمجھ سکےں اور دھوکے سے نہ صرف لڑکی بلکہ اس لڑکے کوبھی ٹھکانے لگادےا جائے‘ دےکھئے نہ ےہ کتنی عجےب سی بات ہے کہ اکثرگھر والوں کی ناراضگی مول لے کر اور گھر سے بھاگنے والے اس جوڑے بالخصوص لڑکے کو خوب علم ہوتا ہے کہ لڑکی کے گھر والے زندہ نہےں چھوڑےں گے ‘اس کے باوجود بھی وہ جوڑا ان کے دھوکے مےں آجاتا ہے ‘وہ اپنے خاندان کے کسی اےسے پیارے ¾ کسی بزرگ جس کااحترام پورا کنبہ کرتا ہے ‘وہ جوڑا اس بڑے مشر کی چکنی چپڑی باتوں مےں پھنس ہی جاتا ہے‘ ان کو اےسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ان کے خاندان والوں نے ان کی ےہ غلطی معاف کردی ہے اور پھر ےہی خوش فہمی اس کے لئے موت کا پیغام بن جاتی ہے‘ صبح اس کے جو رشتہ دار اس کے ساتھ ہنس ہنس کر باتےں کررہے ہوتے ہےں‘ ان مےں سے بڑوں کو تو علم ہوتا ہی ہے کہ آج اس لڑکی اور لڑکے کو مار دےاجائے گا‘ گھر کے ےہ افراد بہت کوشش کرتے ہےں کہ اس جوڑے کو کسی طور شک نہ ہونے دےں کہ آج ان کی زندگی کا آخری دن ہے ۔اےسا ہی اےک دلخراش واقعہ 2جولائی کو تھانہ ےکہ توت کے علاقہ دےر کالونی مےں پےش آےا جہاں اپنوں نے غےرت کے نام پر جوانسال لڑکے اور دوشےزہ کو بےدردی کے ساتھ قتل کردےا اور کسی کو کانوں کان تک خبر نہےں ہوئی‘ بلکہ خاموشی کے ساتھ دونوں نعشےں دفنا دی گئےں اس واقعہ کی تفصےل کچھ اس طرح ہے کہ دو جولائی کو دےر کالونی کا رہائشی طالب علم وقاص اپنی خالہ زاد سےما سے ملنے اس کے گھر گےا‘ اصل مےں وقاص اور سےما اےک دوسرے کو پسند کرتے تھے لےکن دونوں کی کسی اور جگہ منگنی ہوچکی تھی ‘ اس کے باوجود وقاص نے سےما سے وعدہ کےا تھا کہ وہ ساری عمر اس کے ساتھ رہے گا وقاص اور سےما اےک کمرے مےں موجود تھے کہ اچانک سےما کا چچا ہاشم آگیا‘اس نے دونوں کو قابل اعتراض حالت مےں دےکھ لےا جس پروہ مشتعل ہوگےااور اپنے بھائےوں ےعنی سےما کے والد شہاب الدےن ¾صالح محمد کو بلاےا اور انہیں تمام صورتحال سے آگاہ کےا‘ ابتدائی طور پر تےنوں نے صلاح مشورہ کےا اورپھر وقاص کے چچا نور الدےن کو بھی گھر بلاےا اور پھرجرگہ ہوا جس مےں باہمی مشاور ت کے بعد فےصلہ کےاگےا کہ دونوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا جائے‘ اس فیصلے کا علم جب دونوں(سیما اور وقاص )کو ہوا ہو گا تو ان پر کیا گزری ہو گی؟ ان کی زندگی کی چند ہی گھڑیاں ان کے پاس باقی رہ گئی ہیں کچھ دیر بعد کوئی آئے گا اور انہےں زندگی کی قید سے آزاد کر دے گا پھر نہ جانے ان کی نعشوں کا کیا ہوگا‘دفنائی جائیں گی یا پھر ویرانے میں پھےنک کرچلے جائےں گے؟ ان پر یہ گھڑیاں کس کرب میں گزری ہو ںگی وہ ذہنی طور پر کس قدر پریشان حال ہوگے ‘اےک اےک لمحہ ان پر گراں گز را ہوگا ‘اس انتظار میں ہوں گے کب جلاد آئے گااوران کی زندگی تمام ہو جائے گی اور پھر رات کا وہ پہر آ پہنچا جس کافےصلہ جرگے مےں ہوا طے کیا ہو گا‘ یعنی گولی کس نے چلانی ہے ؟ نعشےں کس نے ٹھکانے لگانی ہےں ؟ گاڑی کون چلائے گا ؟ کون کس کس کوبچائے گا ؟ ساری منصوبہ بندی مکمل کی گئی ہو گی ۔رات تقرےباً 11 بجے کے قرےب وقاص و سےما کو غےرت کے نام پر قتل کردےاگےا۔

کچھ دن خاموشی کے بعد اچانک پولےس کو خبر ملی کہ دےر کالونی مےں غےرت کے نام پر دوہرے قتل کی واردات ہوئی ہے اور نعشےں بھی خاموشی کے ساتھ دفنادی گئی ہےں ‘جس پر پولےس حرکت مےں آگئی اور تحقےقات کا آغازکیاتو انکشاف ہواکہ چار افراد نے مل کر دونوں کو قتل کےا ہے جس پر پولےس نے کاروائی کرتے ہوئے غےرت کے نام پر دوہرے قتل مےں ملوث تےن قاتلوں کو گرفتار کرلےا ‘گرفتار ملزموں مےں مقتول کا چچا ¾ مقتولہ کا والد اور چچا شامل ہےں جبکہ فائرنگ کرنے والے مقتولہ کے اےک اور چچا کی گرفتاری کے لئے چھاپے شروع کردےئے گئے‘ گرفتار ملزموں نے دونوں کو قابل اعتراض حالت مےں دےکھا تھا جس پر فائرنگ کرکے دونوں کو قتل کردےا‘ ملزموں نے قبروں کی نشاندہی بھی کردی‘ اس ضمن مےں ڈی اےس پی اعتراز خان نے ”آج “ کوبتاےاکہ دو جولائی کو رات کی تاریکی میں طالب علم وقاص اور دوشےزہ سےما کو غےرت کے نام پر قتل کےاگےا اور پھر بغےر جنازہ پڑھے انہےں الگ الگ مقامات پر خاموشی کے ساتھ دفنانے کا انکشاف ہوا ‘جس پر پولےس حرکت مےں آگئی اور مختلف ذرائع سے تحقےقات کا آغاز کےا تو انکشاف ہواکہ واقعی اس جوڑے کو بےددری کے ساتھ قتل کےاگےا جس پر کاروائی کرکے لڑکے کے چچا نور الدےن ¾ لڑکی کے والدشہاب الدےن اور چچا صالح محمد کو گرفتار کرلےا ‘جنہوں نے دوران تفتےش بتاےاکہ وقوعہ کے روز قابل اعتراض حالت مےں دےکھ کر لڑکی کے چچا ہاشم نے فائرنگ کرکے دونوں کو قتل کےا اور پھر دونوں خاندانوں کے مشران کی باہمی مشاورت کے بعد رات گئے انہےں بغےر جنازہ کے رحمان بابا قبرستان مےں دفناےاگےا اور ےوںواقعہ کے11روز بعدعلاقہ مجسٹرےٹ کی نگرانی مےں قبرکشائی کرکے پوسٹ مارٹم کے بعد نعشےں دوبارہ دفنادی گئےں۔ابتدائی رپورٹ کے مطابق مقتولےن کو سر وں مےں گولےاں ماری گئےں جبکہ جسم پر کسی قسم کے تشدد کے نشانات نہےں تھے ‘اپنوں ہی کے ہاتھوں غےرت کے نام پر قتل ہونے والے مقتولےن کی جب قبرکشائی کی گئی تو نعشےں خون مےں لت پت اور کفن بھی خون آلود پاےاگےا‘ پولےس کے مطابق دونوں کو قتل کرنے کے بعد صرف انہےں کفن مےں لپےٹ کر بغےر جنازہ ادا کئے دفنادےاگےا قبرکشائی کے بعد جب نعشےں نکالی گئیں تو قرےبی رشتہ دار سے وقاص اور سےما کی شناخت بھی کرائی گئی‘ جس کے بعد پوسٹ مارٹم کےاگےا اور خےبر مےڈےکل کالج کی ٹےم نے نمونے حاصل کرکے نعشےں دوبارہ دفنا دیں ۔افسو س صد افسوس !ےوں تو ہم بڑی بڑی باتےں کرتے ہےں ¾ لوگوں کو لےکچر بھی دےتے ہےں لےکن ہم اپنے خاندانی نظام کو بقاءنہیں دے پائے ‘اس نظام کو اتنا مضبوط اور مستحکم نہےں رکھ سکے کہ ہمارے بچے اپنے مستقبل کے اتنے اہم فیصلے خود ہی کرنے لگے‘نئی نسل اےسی راہ کا چناﺅ کرنے لگی جو پورے خاندان کےلئے باعث ندامت ہو‘ آج مغرب کی آزادی کےبل کے ذرےعے ہمارے معاشرے مےں اتنی سراےت کرچکی ہے کہ بڑے چھوٹے کی تمےز باقی نہےں رہی‘ موبائل نے ہمارے معاشرے کی وہ دھجےاں بکھےری ہےں جو کسی کے تصور مےں بھی نہےں تھےں ‘والدےن کی جانب سے اپنے بچوں خصوصاً صاحبزادےوں کو موبائل کی فراہمی خود اپنے پاﺅں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے‘ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمےں اپنی بچےوں کو موبائل جےسے زہر قاتل آلہ سے جان چھڑانی ہوگی‘ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم تعلیم کے شعبہ میں آگے نہیں بڑھ رہے اور اسی وجہ سے مسائل کا شکار ہیں کوئی بھی مسئلہ پیش آجائے توموت کے سواکوئی راستہ ہی سجھائی نہےں دیتا جس نے جو کہا وہ کر دیا۔

 یہ نہ دیکھا کہ اس کے اثرات ہم پر اور ہماری آنے والی نسل پر کیا پڑیں گے؟ کچھ ہماری معاشرتی عادات و اطوار اور کچھ رویئے بھی ایسے ہیں کہ ہمیں کوئی گناہ کوئی جرم یعنی اخلاقی جرم کرنے پر بھی وہ شرمندگی نہیں ہوتی جو ہونی چاہئے اور جب بات ہاتھ سے نکل جاتی ہے تب ہمیں سمجھ آتی ہے اورپھر ہمارے پاس مہلت بھی نہیں ہوتی جیساکہ ےکہ توت دےر کالونی مےں پےش آنےوالا دلخراش واقعہ ہے‘ اےسے واقعات سے ہمےں سبق سےکھنا چاہئے ادھر غےر ت کے نام پر قتل عام پر نظرڈالی جائے تو غیر سرکاری اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں ہر سال 1 ہزار خواتین غیرت کے نام پر قتل جبکہ 21 فیصد لڑکیوں کی کم عمری میں شادی کر دی جاتی ہے‘ مگر پاکستان میں خواتین کیخلاف جرائم کی شرح سے متعلق حتمی اعدادوشمار اب بھی مبہم ہیں‘جب تک ہمیں واقعات کی شرح کا پتا نہیں چلے گا ہم اس معاملے کی حقیقت تک نہیں پہنچ سکتے‘ اس حوالے سے این سی ایس ڈبلیو نے ایک سروے کروانے کی تجویز دی ہے امید ہے کہ وہ جلداس پر عمل شروع ہو جائے ‘خیبر پختونخوا میں خواتین کے خلاف جرائم کی شرح انتہائی تشویشناک ہے خواتین کو کبھی غیرت کے نام پر قتل کیا جاتا ہے تو کبھی سورہ کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے‘ کئی خواتین کی پولیس تک رسائی نہیں ہے اور ایسے کیسز کا مقامی جرگے میں فیصلہ ہو گا تو اس کا کہیں پر دستاویزی شکل میں اندراج نہیں ہوتا لیکن اس کے باوجود اگر آپ کسی بھی سال کے چھ ماہ کا ڈیٹا نکال لیں تو اس میں40 فیصد جرائم خواتین اور بچیوں کیخلاف یا ان سے متعلق ہوتے ہیں‘موجودہ صورتحال میں خواتین کا کہنا ہے کہ انہیں اپنے خلاف اٹھنے والا ہاتھ خود روکنا ہوگاماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ خواتین کیخلاف جرائم سے متعلق قومی سروے کا فیصلہ احسن اقدام ہے کیونکہ قوانین پر عملدرآمد اور مستقبل کی منصوبہ کے لئے درست اعدادوشمار ضروری ہیں۔