سفر کی روداد اور تاریخ کا ورق

 سینئر براڈ کاسٹر رضا علی عابدی ریل کے سفر کی صرف روداد تک محدود نہیں رہتے بلکہ ساتھ ہی تاریخ کے حوالے بھی دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم فرسٹ کلاس میں بیٹھے تھے اس اعلیٰ درجے کے مسافروں کا شاید خاص خیال رکھا جاتا ہے اور انہیں کچھ صابن تولیہ وغیرہ بھی ملتا ہے کوئی مجھ سے پوچھے تو فرسٹ کلاس کا یہ ڈبہ کچھ ایسا برا بھی نہ تھا آرام دہ نشستیں تھیں اوپر کی نشستوں پر چڑھنے کیلئے چمکیلے الیمونیم کی سیڑھی تھی جو دیوار کے کھانچے میں بٹھا دی گئی تھی اس کے نیچے کوڑے دان تھا جو بہت مضبوطی سے بندتھا تاکہ کسی قسم کی بونہ پھیلے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ڈبے کے اندر ہی غسل خانہ بھی تھا اور بہت صاف تھا میری ٹرین کوئٹہ سے نکلی تو نشیب میں اترنے کے بجائے کول پور کی بلندی پر چڑھنے لگی راستے میں وہ اسٹیشن آیا جسے لوگ سریاب کہتے ہیں لیکن جس کا نام ٹائم ٹیبل میں سر آب لکھا ہے یہ سر آب ہے کچھ آگے آب گم ہے سر آب کے بعد اسپز ند کا جنکشن پڑا یہیں سے قوس بناتی ہوئی وہ پٹڑی نظر آئی جو آبادیوں سے نکل کر ویرانوں میں چلی جاتی ہے اور گرد اڑاتی ریت پھانکتی ہوا کے ساتھ سرکنے والے ریتیلے ٹیلوں سے بچتی بچاتی ایران تک جاتی ہے کہنے والے کہتے ہیں کہ یہ دنیا کی سب تنہا بین الاقوامی ریلوے لائن ہے اس کی کہانی بھی بہت دلچسپ ہے اسپزند سے الگ ہو کر زاہد ان تک جانے والی تقریباً ساڑھے سات سو کلو میٹر لمبی یہ لائن پہلی عالمی جنگ کے دوران ڈالی گئی تھی اس سے پہلے جان لیوا سفر اونٹوں کے ذریعے ہوتا تھا کہتے ہیں کہ جنگ سے ذرا پہلے کوئی ایسی بیماری پھیلی کہ اس راستے پر چلنے والے تین ہزار کے تین ہزار اونٹ مرگئے راہ میں ان کے اتنے بہت سے ڈھانچے بکھرے پڑے تھے کہ لوگ کہا کرتے تھے کہ آپ ڈھانچوں کے اوپر چل کر ایران تک جا سکتے ہیں‘ ایران تک لائن بچھانے کیلئے اگست1916ء میں پورے راستے کا سروے کرنے کا فیصلہ ہوا اور پھر اتنی تیزی سے کام ہوا کہ صرف پانچ مہینوں میں دالبندین تک لائن پڑ گئی تقریباً دو سو کلومیٹر کا یہ مرحلہ نسبتاً آسانی سے طے ہوا لیکن اسکے آگے ایسا بھیانک ریگستان تھا کہ اسکے تصور سے لوگ آج تک ڈرتے ہیں اور ریل گاڑیاں اپنے ساتھ اب بھی کھانے پینے کا بہت ساسامان لے جاتی ہیں کہ اگر ٹرین ریگستان میں کہیں بگڑ جائے تو مسافر بھوکے پیاسے نہ مر جائیں‘ پھر بھی باقی چار سو میٹر کی لائن ایک سال میں ڈال دی گئی اور1918ء میں پوری ہوئی لیکن ویرانوں کا یہ عالم ہے کہ دالبندین اور نوکنڈی کے درمیان تقریباً پونے دو سو کلو میٹر کے راستے میں صرف ایک اسٹیشن ہے جہاں آبادی نہ ہو وہاں اسٹیشن کیوں بنیں‘ کتابوں میں لکھا ہے کہ اس راستے میں سال کے ایک سو بیس دن مسلسل ہوائیں چلتی ہیں کہتے ہیں کہ ریت اتنی تیزی سے اڑتی ہے  کہ جلد کو کاٹ ڈالتی ہے بارش اول تو ہوتی نہیں اور اگر ہوتی ہے تو پہاڑوں سے اپنے ساتھ پتھر بہا لاتی ہے جو پورے دشت میں پھیل جاتے ہیں لیکن ہوائیں اپنے ساتھ ایک اور تحفہ بھی لاتی ہیں جسے لوگ دوریگ کہتے ہیں یعنی چلتے پھرتے پہاڑ‘ نئے چاند کی شکل کے یہ ٹیلے ایک جگہ چین سے نہیں رہتے بلکہ سرکتے جاتے ہیں اور کبھی کبھی ریلوے لائن کے اوپر جم کر بیٹھ جاتے ہیں انجینئر ان ٹیلوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے لہٰذا وہ ان کے پہلو سے نئی لائن نکال کے لے جاتے ہیں‘ شروع میں یہ لائن صرف فوج کے کام آتی تھی بعد میں فوجیوں نے اسے فارغ کر دیا یہاں تک کہ نوکنڈی اور زاہدان کے درمیان لائن بند کرکے دو سو کلو میٹر سے زیادہ پٹڑی اکھاڑ لی گئی لیکن جب دنیا کی دوسری بڑی لڑائی چھڑی تو لائن دوبارہ ڈالی گئی ریلوے کے انسپکٹر خان بہادر نظام الدین نے اس کامعائنہ کرکے اسے درست قرار دیا اور 20 اپریل 1942ء کو زاہد ان تک یہ لائن دوبارہ کھلی۔ اس روز مجھے اسپزند کا اسٹیشن بھی ویران سالگا گاڑی پچھاڑی نہ کوئی بستی نظر آئی‘ نہ آبادی‘ دائیں بائیں اگر کچھ تھا تو مٹیالے میدان تھے‘ پتھریلے پہاڑ تھے بھوری چٹانیں تھیں اور بلا کا سناٹا تھا جس میں گونج کر ریل گاڑی کی آواز واپس آرہی تھی کہ اتنے میں کول پور کا اسٹیشن آگیا‘ ہر طرف دھوم سی مچ گئی کول پور‘ کول پور‘ گاڑی اچھی طرح روک دی گئی‘ سارے ہی مسافر نیچے اتر آئے اور دھوپ تاپنے لگے مستریوں نے گاڑی کو ٹھونک بجاکر دیکھنا شروع کیا تب پتہ چلا اب ریل گاڑی درہ بولان میں داخل ہوگئی۔

 اوراترائی شروع ہوگی میرا خیال تھا کہ اب سفر آسان ہو جائے گا پھر پتہ چلا کہ اترائی کا سفر خطرناک ہوتا ہے اس وقت گاڑی چلانے کا کمال انجن ڈرائیور نہیں دکھاتا بلکہ گاڑی کے بریک دکھاتے ہیں اسٹیشن سے ذرا آگے شاید انگریزوں  کے زمانے کا بڑا سابورڈ لگا تھا جس پر انگریزی میں لکھا تھا اسٹاپ چیک بریکس‘ یعنی رکئے اور بریک آزما کر دیکھ لیجئے‘ گاڑی آگے سرکنے لگی پہیوں کی رگڑ سے اسکے بریک سیٹی سی بجانے لگے کچھ آگے ایک  اور بڑا سا بورڈ لگا تھا اس پر بھی انگریزی میں لکھا تھا (ترجمہ)”ڈرائیورو‘ پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی“ ٹرین درہ بولان میں داخل ہو کر نیچے اترنے لگی دونوں جانب وہ چٹانیں آگئیں جو ایک صدی پہلے محنت کشوں نے خون پسینہ ایک کرکے کاٹی ہوں گی اور ان کے درمیان ریل گاڑی کا راستہ بنایا ہوگا عجیب چٹانیں تھیں یوں لگتا تھا کہ پتلے پتلے پتھر اوپر تلے مضبوطی سے جما دیئے گئے ہیں نیچی چٹانیں ختم ہوئیں تو اونچے پہاڑ شروع ہوگئے سارے کے سارے پتھریلے‘ سب کے سب بنجر‘ ٹرین ڈھلان پر اتر رہی تھی اور صاف لگتا تھا کہ اسے چلایا کم اور روکا زیادہ جا رہا ہے آخر وہ مچھ کے اسٹیشن پر پہنچ گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔