بائیڈن کی مڈل ایسٹ ڈاکٹرائن

کیا یہ ممکن ہے کہ غزہ اور ویسٹ بینک کو ہمیشہ کےلئے بنجا من نتن یاہو کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ چھبیس ہزار انسانوں کے سفاکانہ قتل کے بعد بھی معاملات کو پرانی ڈگر پر چلنے دیا جائے؟ اسرائیلی عوام اور انکے حکمران تو ایسا ہی چاہتے ہیں۔ پونے پانچ ملین بے بس فلسطینی نہ صرف انکے خبط عظمت کو تقویت پہنچاتے ہیں بلکہ وہ انکے ایک علاقائی طاقت ہونے کے تصور کو بھی جواز مہیا کرتے ہیں۔ اسرائیلی اس شاہانہ منصب کو چھوڑنے پر کیوں راضی ہوں گے‘انہیںصرف امریکہ ہی راضی کر سکتا ہے۔ کیا امریکہ ایسا کرنے پر آمادہ ہو گیا ہے۔ آجکل واشنگٹن اور لندن دونوں دارالخلافوں سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں۔ کیا ایسا ممکن ہے۔ اسرائیل اگر ریاست فلسطین کو تسلیم نہ کرے تو امریکہ اور برطانیہ کے ارادوں اور اعلانات سے کیا فرق پڑے گا‘ ابھی تو جنگ جاری ہے ‘ اسرائیل اپنے گلے میں ایک نسل کش ریاست کا طوق ڈالنے کے بعد بھی ہر روز سینکڑوں فلسطینیوں کو ہلاک کر رہا ہے۔ وہ کسی ایسی ریاست کو کیوں تسلیم کرے گا جس کی جغرافیائی سرحدیں ہی طے نہ ہوئی ہوں۔ کیا وہ یروشلم کی تقسیم پر آمادہ ہو جائیگا۔ کیا فلسطینی اپنے آباﺅ اجداد کی دھرتی کو ہمیشہ کے لئے یہودیوں کے حوالے کر کے صرف مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی پر اکتفا کر لیں گے۔ جو مسائل پون صدی سے لاینحل چلے آ رہے ہیں وہ چند ماہ میں کیسے حل ہو سکتے ہیں ۔ ان تمام سوالوں کا یہ جواب دیا جا رہا ہے کہ اگر اس تنازعے کا کوئی دیر پا حل نہ ڈھونڈا گیا تو غزہ کا المیہ دوبارہ بھی رو نما ہو سکتا ہے اور اگر ایسا ہوجاتاہے تو پھر یہ سوال پیدا ہو گا کہ امریکہ کے مسلط کئے ہوئے ورلڈ آرڈر کی کیا ضرورت ہے۔ کیا اس نام کا کوئی نظام موجود بھی ہے یا نہیں آج اگرمغربی دارالخلافوں میں ایک فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کی بات ہو رہی ہے تو یہ فلسطینیوں کے دکھوں کے مداوے کے لئے نہیں ہو رہی بلکہ یہ امریکی ورلڈ آرڈر کو بچانے کے لئے ہو رہی ہے یورپی ممالک پوچھ رہے ہیں کہ اگر انکے جہاز انکی مصنوعات دنیا کی نصف آبادی والے بر اعظم ایشیا تک نہیں پہنچا سکتے تو انکی معیشتوں کا کیا بنے گا۔ یورپی یونین کے انتیس ممالک کی معیشتیں پہلے ہی سے کورونا وائرس اور یوکرین جنگ کے بوجھ تلے کراہ رہی تھیں‘ اب بحیرئہ احمر اور سویز کنال کے راستے بھی ان پرحوثی جنگجوﺅں نے بند کر دیئے ہیں۔آجکل ایشیا سے یورپ‘ تیل اوردیگر مصنوعات لیجانے والے بحری جہاز بحیرئہ روم کو چھوڑ کر افریقی ممالک سے ہوتے ہوئے یورپ پہنچتے ہیں۔ جہاز رانی کی کمپنیوں نے طویل فاصلوں کی وجہ سے کرایے اتنے بڑھا دیئے ہیں کہ تاجروںکے لئے انکی ادائیگی ممکن نہیں رہی۔ امریکی قیادت جب تک فلسطینی ریاست کے قیام کو ملتوی کر سکتی تھی کرتی رہی۔ اب صرف یورپ ہی سے نہیں امریکہ کے اندر سے بھی آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ اسرائیل کو پورے عالمی نظام کو ہائی جیک کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ یہ آوازیں اگر چہ کہ اتنی توانا نہیں جتنا کہ امریکی سیاست پر یہودیوں کا غلبہ ہے مگر امریکہ میں یہودیوں کی نئی نسل اسرائیل پر اس طرح جان نچھاور نہیں کرتی جس طرح ان کے آباﺅ اجداد کرتے تھے۔ امریکی نوجوان‘ خواہ ان کا تعلق کسی بھی مذہب سے کیوں نہ ہو ‘ غزہ میں اسرائیلی بربریت کے حق میں نہیں ہیں۔اس طبقے نے صدر بائیڈن کی قیادت پر عدم اعتماد کا اظہار کر دیا ہے۔ اسی لئے کئی سرویز کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کی مقبولیت صدر بائیڈن سے زیادہ ہے۔ ڈیمو کریٹک پارٹی جانتی ہے کہ اس نے 2020ءکا الیکشن کالج کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کے ووٹوں کی مدد سے جیتا تھا ۔ اب اگر انہیں راضی نہیں کیا جاتا تو رواں سال نومبر کے صدارتی انتخاب میں فتح ممکن نہ ہو گی۔ اسی لئے آجکل ڈیمو کریٹک پارٹی کے حامی تجزیہ نگار صدر بائیڈن کوایک نئی مڈل ایسٹ ڈاکٹرائن پر غورو فکر کی دعوت دے رہے ہیں۔ممتاز کالم نگار ٹام فریڈ مین کی پیش کردہ اس ڈاکٹرائن کے پہلے مرحلے میں ویسٹ بینک پر اسرائیل کیساتھ مل کر حکومت کرنے والی فلسطینی اتھارٹی کو فعال کیا جائیگا اسکے اداروں کو اتنا مضبوط بنایا جائیگا کہ وہ ایک آزاد حیثیت میںمغربی کنارے کی پونے تین ملین آبادی کے علاوہ غزہ کے دوملین لوگوں کو بھی ایک متحرک قیادت مہیا کر سکے۔ مشرق وسطیٰ کے امور کے ماہر صحافی ٹام فریڈ مین نے دو فروری کو دی نیو یارک ٹائمز میں شائع ہونیوالے کالم میں لکھا ہے کہ اگر صدر بائیڈن نے فلسطین کے مسئلے کو اہمیت نہ دی تو وہ اپنی صدارت کے علاوہ امریکی ورلڈ آرڈر کو بھی داﺅ پر لگا دیں گے۔ ٹام فریڈ مین نے لکھا ہے کہ انہوں نے مشرق وسطیٰ کے کئی ماہرین سے بات چیت کے بعد بائیڈن ڈاکٹرائن کے خدو خال مرتب کئے ہیں۔اسکے مطابق سعودی عرب کواگر فلسطینی ریاست کے قیام کا یقین دلا دیا جائے تو وہ اسرائیل کو تسلیم کرنے میں پس و پیش نہیںکرے گا۔کالم نگار کی رائے میں اسرائیلی عوام بھی بالآخر کسی ایسی فلسطینی ریاست کو قبول کر لیں گے جو عسکری طاقت نہ رکھتی ہو۔ صدر بائیڈن کو انکے دوستوں نے ایک ڈاکٹرائن تو مہیا کر دی ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ اس پر عملدرآمد بھی کرتے ہیں یا نہیں۔