اب تو بات بہت آگے تک جا نکلی ہے ریڈیو تو ڈھونڈنے سے بھی کہیں نہیں ملتا جب ریڈیو اور وہ بھی پرانا ریڈیو نہیں مل رہا ہو تو ریڈیو سننے والوں کا ملنا محال ہی ہوگا مگر اس سب کے باوجود ہم کہتے ہیں کہ ریڈیو کا اب بھی زمانہ موجود ہے ۔اسی لئے تو معروف براڈ کاسٹر آغا ناصر اپنی کتاب میں 1965ءکی پاک بھارت جنگ میں ریڈیو اور ٹی وی کے کردار سے متعلق لکھتے ہےں کہ اس بات کو تسلیم کرنے میں کوئی حرج نہےں کہ ریڈیو کا کردار ٹیلی ویژن کی نسبت اس جنگ میں زیادہ موثر تھا ایک تویہ کہ ریڈیو پرانا ادارہ تھا ‘سارے ملک میں سنا جاسکتا تھا پھر یہ کہ ان کے پاس عملے اور آلات کی کمی نہےں تھی‘ فنکاروں‘ موسیقاروں‘ گلوکاروں سے ان کے پرانے روابط تھے اس کے برعکس ٹیلی ویژن ایک نوزائیدہ ادارہ تھا جو ابھی صرف لاہور شہر تک محدود تھا ‘پھر یہ کہ ریکارڈنگ کے وسائل نہ ہونے کے سبب ہر فنکار اور گلوکار کو بذات خود ٹی وی سٹیشن آنا پڑتا تھا‘ محدود وسائل اور چھوٹا سا صرف ایک سٹوڈیو ہونے کے سبب ہم زیادہ پروگرام نہےں کرسکتے تھے مگر نئے نئے جنگی ترانوں کوجو ریڈیو والے ریکارڈ کررہے تھے‘ ٹیلی ویژن پر پیش کرنے کے لئے ہم نے ایک انوکھا طریقہ اختیار کیا ریڈیو سے گانوں کی ریکارڈنگ حاصل کرکے ہم گانے فنکاروں کی تصویروں کے ساتھ دکھاتے تھے اس طرح نورجہاں‘نسیم بیگم‘ مسعود رانا ‘امانت علی ‘بلقیس خانم‘ شوکت علی اور دوسرے بہت سے گلوکاروں کی آوازوں میں ریکارڈ کئے ہوئے نغمے لاہور کے گھر گھر میں گونجتے لگے‘ ہمارے مخصوص موسیقاروں میں خلیل احمد‘مصلح الدین ‘رشید عطرے ‘نثار بزمی ‘ناشاد‘شہریار وغیرہ دن رات نئے گیتوں کی دھنیں ترتیب دینے میں
مصروف رہتے اس سلسلے میں نسیم بیگم کا گایا ہوا مشہور نغمہ‘خالصتاً لاہور ٹیلی ویژن کی تخلیق تھا میں سمجھتا ہوں آج تک اس نغمے کا اثر کم نہےں ہوسکا ہے۔
اے راہ حق کے شہیدو ‘وفا کی تصویرو
تمہےں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہےں
یہ طے کیاگیا کہ ترانوں اور نغموں کے علاوہ مختصر دورانیے کے کھیل پیش کئے جائیں میرے حصہ میں’پیشکش پاکستان اور عظمت کے نشان‘ شامل تھے یہ اتنا زیادہ کام تھا کہ میں صبح سویرے سے رات تک اس میں لگا رہتا تھا مگر وہ جذبہ کچھ اور ہی تھا لکھنے والے اور اداکار بھی اس انہماک اور محنت سے کام کرتے تھے کرفیو کے زمانے میں کبھی کبھی رات کو بھی ٹی وی میں ہی رہنا پڑتا تھا‘ٹی وی سٹوڈیو کے اطراف خندقیں کھود دی گئی تھےں جہاں فضائی حملوں کے سائرن بجنے کے بعد سارے لوگ پناہ
لیتے تھے۔ ابتدائی ایک دو روز مستعدی سے یہ کام ہوا ‘مگر پھر رفتہ رفتہ لوگ اپنے کاموں میں مصروف رہنے لگے اور فضائی حملے کے سائرن بجنے کے باوجود ہم سٹوڈیو میں ریہرسل کرتے رہتے‘ موسیقار دھنیں بناتے رہتے اور مصنف کونوں کھدروں میں بیٹھے سکرپٹ لکھتے رہتے‘ البتہ نشریات کے دوران جب فضائی حملے کا سائرن بجتا تو پروگرام بند کرنے پڑتے ناظرین کو بھی خندقوں میں جاکر پناہ لینے کا مشورہ دیا جاتا۔1965ءکی جنگ ہماری تاریخ کا درخشاں باب ہے ہم نے ان سترہ دنوں میں یہ ثابت کردیا کہ جب ہم منظم اور متحد ہوجائیں تو ناقابل شکست ہےں‘ میں نے لاہور شہر کو اور اہل لاہور کو جنگ کے حالات میں تبدیل ہوتے دیکھا ان سترہ دنوں کے لئے وہ ایک مختلف شہر بن گیا تھا۔آغا ناصر نے اپنی کتاب میں جو بھی لکھا حرف بہ حرف درست ہے اور جس طرح انہوں نے 1965ءکی جنگ کے دوران ریڈیو اور ٹی وی کے کردار اجاگر کئے ان کی اہمیت بہت ہے۔