پہاڑوں کی سیر


کسی بھی لکھاری کے طرز تحریر کا قارئین کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں اہم کردار ہوتاہے اور خاص کر جب بات ہو سفر نامے کی تو اس میں دلکش منظرکشی ایک خوبصورت رنگ بھر دیتی ہے اور پڑھنے والے اپنے آپ کواس منظر کا حصہ سمجھنے لگتے ہیں‘ اس طرح تحریر کی جاذبیت قاری کو شروع سے لے کر اختتام تک اپنے سحر میں جکڑے رکھتی ہے۔معروف صحافی رضا علی عابدی اپنے ماریشس کے سفرنامے میں ایسی ہی منظر کشی کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ ایک میں ہی کیا‘ سارے مسافر کھڑکی سے باہر یوں دیکھنے لگے کہ کہیں کوئی منظر نگاہوں میں محفوظ ہونے سے رہ نہ جائے۔ کوئی مخروطی پہاڑوں کو دیکھ رہا تھا‘ کوئی جا بجا بہتے ہوئے چشموں کو۔ کسی کی نگاہ جھیلوں پر تھی اور کسی کی نظر دور دور تک پھیلے ہوئے گنے کے کھیتوں پر۔ مگر میری آنکھوں نے ان کھیتوں کے بیچ ایک نیا منظر دیکھا۔ ہر کھیت میں پتھروں کے اہرام کھڑے تھے۔ دو دو تین تین اہرام۔ کہیں ایک قطار میں کہیں بے ترتیبی سے۔ طیارہ نیچا ہونے لگا تو وہ اور قریب اور صاف نظر آنے لگے‘ کسی نے پتھر چن چن کر دس بیس نہیں‘ سو پچاس نہیں‘ہزاروں اہرام تعمیر کئے تھے۔ میں نے بیتاب ہوکر اپنے برابر بیٹھے ماریشس کے باشندے سے پوچھا۔ ”یہ کیا ہیں؟“ فوراً ہی جواب مل گیا۔ ”پتھر“ پھر میں ہوائی اڈے پر اترا اور اپنے میزبانوں کی کار میں بیٹھ کر شہر کی جانب چلا تو راستے بھر گنے کے کھیت بھی چلے۔ ان کھیتوں میں بھی وہی اہرام کھڑے تھے‘میں نے کسی سے پوچھا۔ ”یہ کیا ہے؟“ اب کے ذرا تفصیل سے جواب ملا۔ ”کسی زمانے میں یہ کھیت تیار کئے گئے ہوں گے‘ اس وقت مٹی سے جو پتھر نکلے ان کے ڈھیر لگا دئیے گئے۔“ میں ہوٹل پہنچا تو ایک نوجوان نے میرا سامان میرے کمرے میں پہنچایا۔ بھلا سا ہونہار نوجوان تھا۔ ”کیا نام ہے تمہارا“ میں نے اپنی ٹائی کھولتے ہوئے پوچھا ”کریم بلا“۔ ”کہاں کے رہنے والے ہو؟‘ ’یہیں۔ ماریشس کے۔‘ میں نے اپنا ایک جوتا کھولتے ہوئے پوچھا۔ ’کریم بلا۔ کچھ تمہیں پتہ ہے یہ ماریشس کے کھیتوں میں بڑے بڑے وزنی پتھروں کے اہرام کس نے بنائے تھے؟‘ ’ہاں پتہ ہے‘ میں ڈوری کھولتے رک گیا اور پوچھا ’کس نے؟‘ ’جہازی بھائیوں نے۔‘ میں نے دوسرا جوتا کھولتے ہوئے پوچھا اور اس بار میرے سوال میں سوال کم اور حیرت زیادہ تھی۔ ”کس نے؟‘ ’جہازی بھائیوں نے۔ میرے دادا کے دادا نے۔‘ میں نے اپنا سوٹ کیس کھول کراس میں سے سلیپر نکالتے ہوئے پوچھا ’کون تھے تمہارے دادا کے دادا؟‘ ’بلا صاحب۔ کلکتے سے چلے تھے۔ ان کے جہاز کا نام شاہ عالم تھا۔ جون 1885ء کو یہاں ماریچ پہنچے تھے۔“ ”ماریچ؟“ ہاں‘ وہ لوگ اس جزیرے کو ماریچ کہتے تھے۔