برطانوی سیاست کا ہیجان


بعض اوقات ایک غیر ذمہ دارانہ بیان کسی سیاستدان کی فتح کو شکست میں بدلنے کا باعث بن جاتا ہے۔ برطانیہ میں لیبر پارٹی کے ایک لیڈر نے اپنی انتخابی مہم کے دوران ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے ایک ایسی بات کہہ دی جس نے پہلے لیبر پارٹی کے اندر ایک ہیجان برپاکیا‘ پھر لیبر اور ٹوری پارٹی کے مابین محاذ آرائی شروع ہوئی ‘ اسکے بعد برطانیہ کے مسلمان اور یہودی لیڈر ایک دوسرے کے خلاف صف آراءہوئے ۔یہ فسادجب شدت اختیار کرنے لگا تو وزیر اعظم رشی سونک کو بیچ بچاﺅ کرانا پڑا مگر انکی مداخلت اس تصادم میں مزید اضافے کا باعث بن گئی۔ گذشتہ ہفتے لندن میں ہاﺅس آف پارلیمنٹ (ہاﺅس آف کامنزاور ہاﺅس آف لارڈز کے ایوان)جو Westminster Palace میں واقع ہے‘ کے باہر ہزاروں لوگوں کا ایک ہجوم غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ کر رہا تھا‘ اس ہجوم سے کچھ فاصلے پر ایک گروہ اسرائیل کے حق میں نعرے لگا رہا تھا برطانوی میڈیاکے مطابق اسوقت پارلیمنٹ میں جنگ بندی کے حق اور مخالفت میں دھواں دھار تقاریر ہو رہی تھیں۔ کئی اراکین پارلیمنٹ بہ آواز بلند احتجاج کرتے ہوئے ہاﺅس آف کامنز سے واک آﺅٹ کر رہے تھے‘ برطانوی مبصرین کے مطابق اس روز پارلیمنٹ کے اندر اور باہر کے ہنگامے اور افراتفری یہ ظاہر کر رہی تھی کہ اسرائیل کی غزہ میں برپا کی ہوئی جنگ مشرق وسطیٰ سے ہزاروں میل دور اشتعال انگیزی کا باعث بن رہی تھی‘ دیکھا جائے تو برطانیہ کے عوام اوردونوںبڑی سیاسی جماعتوں کے لیڈروں کی اکثریت غزہ میں جنگ بندی کے حق میں ہیںمگر اسکے باوجود محاذ آرائی میں اضافہ ہو رہا ہے۔اسکی وجہ یہ ہے کہ غزہ میں ہلاکتوں کا سلسلہ جاری ہے اور اسرائیل مسلسل امدادی سامان کی ترسیل میں نت نئی رکاوٹیں کھڑی کررہاہے۔ اس تشویشناک صورتحال کے خلاف یورپی ممالک کے علاوہ 
امریکہ میں بھی مسلمانوں ‘ طالب علموں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے شدید رد عمل سامنے آرہا ہے۔ گذشتہ ہفتے لندن کے شمال مشرق میںدس میل کے فاصلے پر واقع Rochdaleمیں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے لیبر پارٹی کے لیڈر اظہر علی نے کہا کہ ” سات اکتوبر کو حماس کا حملہ اسرائیل کی اجازت سے ہو اتھا“ اظہر علی جو ہاﺅس آف کامنز کی ایک سیٹ کے امیدوار تھے ‘نے یہ بیان دیکر برطانوی سیاست کی ہیجان خیزی میں مزید اضافہ کر دیا۔ ٹوری جماعت جو کہ Rochdale کا الیکشن ایک بڑے مارجن سے ہار رہی تھی نے پہلے تو اظہر علی پر Anti semetic یعنی یہود مخالف ہونے کا الزام لگایا اور اسکے بعد یہ بھی کہہ دیا کہ میئر محمد صادق اور انکے مسلمان دوستوںنے لندن کی سیاست کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔ اس کے جواب میں لیبر پارٹی کے ایک لیڈرنے کہا کہ ٹوری پارٹی کی اسلامو فوبیا کی اپنی ایک تاریخ ہے اور یہ الزام تراشی اسی کا تسلسل ہے۔ میڈیا پر ہونیوالا یہ تصادم بہت جلد پارلیمنٹ تک جا پہنچا اور وہاں دونوں جماعتوں کے درمیان ہونیوالی ہنگامہ آرائی کے نتیجے میں لیر پارٹی کے لیڈر Keir Starmer کو دفاعی پوزیشن اختیار کرنا پڑی۔ اس ہنگامہ آرائی کو ختم کرنے کے لئے کئیر 
سٹارمر نے Rochdale کے الیکشن میں اظہر علی کی حمایت سے دستبرداری کا اعلان کردیا۔ انتیس فروری کو ہونیوالے اس انتخابی معرکے میں ایک آزاد امیدوار George Galloway نے کامیابی حاصل کی ۔اسکی جیت میں مسلمان ووٹروں نے نمایاں کردار ادا کیا۔ جارج گیلو وے شروع ہی سے غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ کرنے کے علاوہ لیبر پارٹی پر اسرائیل کی حمایت کرنے کا الزام بھی لگا رہا تھا اس لئے مسلمانوں نے اسے بڑی تعداد میں ووٹ دیئے۔ برطانیہ میں 28جنوری 2025ءکو عام انتخابات ہونیوالے ہیں اس لئے یہ نقطہ نظراہمیت اختیار کر گیا ہے کہ اگر غزہ میں جنگ بندی نہیں ہوتی تو پھر الیکشن میں اس جنگ کو نظر انداز نہ کیا جا سکے گا۔ برطانوی سیاستدان عرب اسرائیل تنازعے سے اس لئے گریز کرنا چاہتے ہیں کہ برطانیہ میں یہودی ‘ مسلمانوں سے کہیں زیادہ بڑی تعداد میں رہتے ہیں۔لیکن دوسری طرف غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ صرف مسلمان ہی نہیں کر رہے بلکہ طالبعلم‘ ترقی پسند ‘ سیاہ فام اور ہسپانوی قومیت کے لوگ بھی اسرائیل کے ظلم وبربریت کی شدید مخالفت کر رہے ہیں۔ اسرائیل کی بڑھتی ہوئی مخالفت کو دیکھتے ہوے وزیر اعظم رشی سونک کی حکومت نے بھی غزہ میں جنگ بندی کے بارے میں واضح مﺅقف اختیار کرنا شروع کر دیا ہے۔ برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ کیمرون نے فاک لینڈ کے دورے میں کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ غزہ میں ابھی اور اسی وقت جنگ بندی ہو جائے۔ اس اعتبار سے غزہ کے بارے میں ٹوری جماعت کے وزیر خارجہ ڈیوڈ کیمرون اور لیبر پارٹی کے لیڈر کئیر سٹارمر یکساں مﺅقف رکھتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ دونوں جماعتیںملکر اپنے ملک کے سیاسی ہیجان پر قابو پانے میں کامیاب ہوتی ہیں یا نہیں۔